احمد فرازیات – فراز کے مداحوں کے لیے خاص۔۔۔عارف انیس

احمد فرار بچپن ہی سے ایک بگڑا ہوا بچہ تھا سکول کے زمانے میں پڑھائی میں اس کا جی نہیں لگتا تھا نت نئی شرارتوں سے پوری کلاس کو سر پر اٹھا لیتا نہ خود پڑھتا نہ کسی کو پڑھنے دیتا استادوں کا اس نے ناطقہ بند کر رکھا تھا اسے مار مار کر وہ عاجز آگئے  تھے اور حیران تھے کہ اس لونڈے کا کیا کریں ایک استاد بائیں کان سے بہرہ تھا ایک دفعہ اسے جو شرارت سوجھی تو اس کے بہرے کان کی طرف منہ کر کے کوئی ناروا بات کہہ دی، لیکن معاملہ گڑبڑ ہو گیا وہ اس کا دایاں کان تھا جو بہرہ نہیں تھا استاد بھڑک اٹھا اور فراز کی خوب پٹائی ہوئی
(فارغ بخاری)
ہوم ورک کر کے نہ لانے پر، فراز کو صبح ہی سخت سردی میں ہاتھوں پر بید کھانے پڑے دوسرے دن اس نے ماسٹر سے بدلہ لینے کی ایک نئی ترکیب سوچی، سکول آٹھ بجے لگتا تھا لڑکے ساڑھے سات بجے تک گراؤنڈ میں پہنچ جاتے اور اسمبلی سے پہلے مختلف کھیل کھیلتے رہتے، فراز نے اس صبح کلاس کے تمام لڑکوں کو سکھا دیا کہ جب ماسٹر گرلکھ سنگھ اسمبلی کے بعد میدان میں حاضری لے تو کوئی بھی اپنا رول نمبر سن کر “یس سر” نہ کہے ،سو ایسا ہی ہوا، پہلا نام سمیع الدین کا تھا دوسرا عبدالرزاق، غرض ایک خاموشی تھی گرلکھ سنگھ اس بے عزتی پر جھلا گیا فراز چونکہ نیا نیا داخل ہوا تھا اس لیے اس کا نام سب سے آخر میں تھا لہذا جب ماسٹر نے آخری نام پکارا تو اس نے کہا “یس سر” پرنسپل بھی وہاں موجود تھا، اس نے یہ کاروائی دیکھی، فراز کو پر نسپل اپنے کمرے میں لے گیا اور پوری کلاس کے ہاتھوں پر بید مارے اب فراز کو پتہ تھا میری خیر نہیں ،اس لیے وہ چپکے سے گھر بھاگ گیا اور کئی دن تک سکول نہیں آیا۔
(توصیف تبسم)
فراز کی کسی بات پر پٹائی ہوتی تو اکثر بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی تھی بید ہاتھ پر پڑتا تو بید کا دوسرا سرا مضبوطی سے ہاتھ میں تھام لیتا اب استاد اور شاگرد میں کھینچا تانی شروع ہو جاتی، ماسٹر جھلا اٹھتا اور دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے، کلاس روم میں ڈیسک تھے جو تین قطاروں میں تھے کلاس انچارج گرلکھ سنگھ کی عادت تھی کہ وہ پیریڈ کے دوران، کلاس میں ڈیسکوں کے درمیان گھومتا رہتا تھا وہ جب فراز کے پاس سے گزرتا تو وہ فاؤنٹین پین اٹھا کر روشنائی اس کی پتلون یا قمیض کے پچھلے حصے پر چھڑک دیتا سفید پتلون پر روشنائی کے نقش و نگار دور ہی سے نظر آ جاتے تھے
(توصیف تبسم)

ماسٹر سونڈی تاریخ پڑھاتا تھا جہاں پیراگراف ختم ہوا “اور بابر نے پانی پت کی تیسری لڑائی جیت لی” تو فراز ایک لمبی سی “اچھا” کہتا یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ بات ہم سب کی سمجھ میں آ گئی  ہے اور ماسٹر جواباً لمبی سی “ہاں۔۔ں۔۔ں” کہتا ایک مرتبہ “ہاں” کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی  تو پوری کلاس کی ہنسی نکل گئی، جس پر سونڈی کو غصہ آ گیا اور اس نے فراز کو بید مارنے شروع کر دئیے فراز نے حسب عادت بید کا سرا مٹھی میں پکڑ لیا اور اس کھینچاتانی میں ماسٹر کا غصہ بڑھتا گیا مارتے مارتے سونڈی نے فراز کو سکول کے بڑے گیٹ سے باہر دھکیل دیا اور حکم دیا کہ کل باپ کو ساتھ لے کر آنا دوسرا دن آیا تو فراز کے ساتھ ایک لفنگا تھا جس کی شلوار کا ایک پائنچہ اوپر اور ایک نیچے تھا ،کندھے پر میلی چادر اور ہاتھ میں بٹیر ،اس لفنگے نے  سکول آکر اودھم مچا دیا عملے کے لوگ اس کو ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئے ، ہیڈ ماسٹر نے فراز سے پوچھا: یہ کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ سر آپ ہی نے تو کہا تھا کہ باپ کو ساتھ لے کر آنا
(توصیف تبسم)

میں نے پیالی اٹھائی، چاۓ کا ایک گھونٹ لیا اور بُرا سا منہ بنا کر پیالی میز پر رکھ دی “اس میں تو چینی نہیں ہے”
فراز بولا “سامنے اتنے چینی پھر رہے کسی کو اٹھا کر ڈال لو(ہم اس وقت چین میں موجود تھے)

میز پر دودھ نہ دیکھ کر وہ چینی ویٹرس کو خاصی دیر سمجھانے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ ہم چاۓ میں دودھ بھی ڈالتے ہیں جب ویٹرس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو اس نے انگوٹھا منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا اور وہ زرد رو چینی لڑکی سچ مچ سرخ ہو گئی  تھی اور اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں۔
(مسعود اشعر)

فراز صاحب سو رہے تھے فون کی گھنٹی بجی غصے میں فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی “میں یوسف لودھی بول رہا ہوں، ایک الجھن تھی اس لیے تمہیں فون کیا”
فراز نے کہا “فرمائیے”
لودھی نے کہا “بس اتنا بتا دو کہ یہ جو قہقہہ کا لفظ وہ قلم والے “کاف” سے ہے یا کتے والے “کاف” سے ؟
(اہل پنجاب کے یہاں “ق” اور “ک” کے مخرج میں کوئی خاص فرق نہیں)
فراز نے جل کر کہا “یوں تو قہقہہ قلم والے کاف سے ہے، اگر یہ قہقہے تمہارے ہیں تو پھر کتے والے کاف سے ہیں”
(توصیف تبسم)

ریاض انور نے خواجہ فرید کی ایک کافی فراز کو اردو ترجمہ کرنے کے لئے  دی، اب سرائیکی میں محبوب کو “پنل”(پ ن ل) بھی کہتے ہیں ترجمہ کرتے ہوۓ کافی میں یہ لفظ آیا تو فراز سیدھا ریاض انور کی بیوی کے پاس پہنچا “بھابی یہاں “نپل”(ن پ ل) کا کیا مطلب ہے ؟ یہ نپل یہاں کیسے آ گیا ؟ وہ شریف عورت پہلے تو شرمائی پھر شرماتے شرماتے اس نے اس کا مطلب بتا دیا
(مسعود اشعر)

ڈیرہ غازی خان میں پچیس روپے کا ایک مشاعرہ پڑھنے میں اور محسن نقوی پہنچے وہاں احسان دانش، قتیل شفائی، عدم صاحب، فراز صاحب سبھی بڑے شاعر موجود تھے عدم کی جب باری آئی تو محفل عروج پر تھی عدم کو بہت داد ملی لوگ مسلسل انہیں داد دے رہے تھے عدم صاحب سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا کسی نے کہا عدم صاحب کو کرسی لا کر دیں ،فراز نے بلند آواز سے کہا انہیں کرسی کی نہیں آیت الکرسی کی ضرورت ہے۔
(اصغر ندیم سید)

ایک دفعہ فراز کو اسلام آباد آنا تھا، دوپہر کے کھانے کا وقت تھا ہم نے کہا چلو چائینز ریسٹورنٹ میں چل کر سوپ پی لیتے ہیں ،سوپ کے پیالے میں آخر میں ایک کنکر نظر آ گیا ،ہم دونوں نے شور مچا دیا وہ بے چارے ترلے منتیں کرتے رہے کہ دوسرے نہ سن لیں، جلدی سے ایک اور سوپ کا بھرا ہوا پیالہ لے آۓ، ہم نے وہ بھی سوپ پی لیا جب ہم اٹھ کر جانے لگے تو فراز نے کہا “اب ہم آئندہ اپنا کنکر ساتھ لے کر آئیں گے”۔
(کشور ناہید)

ضیاء جعفری نے حسب معمول تقریر لکھی اور فراز کو دے دی کہ ذرا اس کو دیکھ لو، فراز کو جو شرارت سوجھی تو اس نے جہاں “کا” وہاں “کی” کر دیا اور جہاں “کی” تھا وہاں ” کے” کر دیا اور جہاں “کے” تھا وہ “کا” بنا دیا اب جو ضیاء جعفری اسکرپٹ لے کر مائیک پر آۓ تو کچھ اس قسم کی تقریر ہوئی:
“محرم الحرام کی مہینہ، معاف کیجیے کا مہینہ تمام دنیا کا مسلمانوں، نہیں کے مسلمانوں کے لئے  ایک متبرک اور حد درجہ محترم مہینہ ہے یہ سانحہ جس کا نظیر، جی نہیں جس کی نظیر دنیا کے تاریخ، معاف کیجیے ، دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، ایک انتہائی دلگداز واقع ہے”
(توصیف تبسم)

میں اپنے بچوں کے ساتھ لنچ کر رہی تھی کہ فراز ثمینہ پیر زادہ اور ثمینہ راجہ کے ساتھ داخل ہوۓ، ملاقات ہوئی تو میں نے کہا “واہ کیا کہنے ایک چھوڑ دو دو ثمینائیں”
کہنے لگے “ہاں بھئ دن میں تو ثمینائیں ہوتی ہیں، شام کو مینائیں(مینا کی جمع) ہوتی ہیں” فراز نے فوراً ثمینہ کا قافیہ ساغر و مینا سے ملاتے ہوۓ کہا
(شمیم اکرام الحق)

ایک بار کسی محفل میں جب میں داخل ہوئی تو فراز نے حسب عادت اٹھ کر کہا “لو جی میری بہن بھی آ گئیں” کچھ دیر بعد ایک صحافی آۓ تو انہوں نے بھی مجھے “باجی” کہہ کر سلام کیا اس پر فراز کی ایک دوست نے مجھ پر طنز کرتے ہوۓ کہا “کیا بات ہے سب تمہیں بہن کہتے ہیں اتنے بہت سے بھائی؟” اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتی فراز فوراً  بولے “تو اس میں کیا برائی ہے، برائی تو یہ ہے کہ کسی خاتون کے بہت سے عاشق ہوں” ان خاتون کا رنگ ایک دم زرد پڑ گیا اور محفل قہقہوں سے بھر گئی۔
(شمیم اکرام الحق)

1996ء میں لندن میں پاکستانی سفارت خانے میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا وہاں پر احمد فراز نے جب اپنی غزل “سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں” سنائی تھی تو آخری شعر کا پہلا مصرعہ پڑھنے پر، “اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں” سامعین میں سے بے شمار لڑکیوں کی آواز ایک ساتھ گونج اٹھی تھی “ٹھہر جائیں، پلیز ٹھہر جائیں”
(ثروت محی الدین)

ایک دن فراز صاحب اپنے ایک دوست کے گھر گئے، اس کے ملازم نے کہا، صاحب سیر سور کرنے گئے ہیں۔ فراز نے کہا ،اس کو درست کر لو۔’’ سور سیر کرنے گئے ہیں‘‘
میڈم نورجہاں سے فراز نے پوچھا ،میڈم آپ نے کتنے عشق کئے ہیں میڈم نہ نہ کرتی رہیں،
فراز نے کہا، میڈم نہ نہ کرتے ہوئے بھی آپ کے تیرہ عشق ہو گئے ہیں۔

مشہور شاعر محسن احسان علیل تھے۔ احمد فراز عیادت کے لئے گئے۔ دیکھا کہ محسن احسان کے بستر پر کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ چادر بھی میلی تھی۔ احمد فراز نے صورت حال دیکھ کر مسکراتے ہوئے محسن سے کہا “یار اگر بیوی بدل نہیں سکتے تو کم از کم بستر ہی بدل لیجئے”

پنجابی کے مشہور مزاحیہ شاعر عبیر ابوذری شاعری سنا رہے تھے، جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ پولیس کو چور کہیں تو کیا فائدہ، بعد میں بدن پر ٹکورکریں تو کیا فائدہ، فہمیدہ ریاض نے فراز صاحب سے پوچھا ،اس کا ترجمہ کیا ہے۔
فراز صاحب نے کہا ،اس کا ترجمہ نہیں، تجربہ ہو سکتا ہے۔

کراچی کے ایک مشاعرے میں ۔ ایک شاعر اجمل سراج ( جسارت سے وابستہ ہیں )۔
نے فراز صاحب سے ایک انتہائی بھونڈا سوال کیا (‌ویسے اس سوال کی بازگشت خاصی ہے) کہ فراز صاحب:
’’ کیا با ت ہے آپ ایک خاص دائرے ( ٹین ایج )عنفوان ِ شباب کے شاعر ہیں ‘‘ ۔۔ ؟؟
فراز صاحب نے جیسے کوئی تاثر بھی نہ ظاہر کیا اور سلیم کوثر صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ۔
’’ میرے لیے یہ بات حیران کن ہے میری شاعری کا دائرہ دریافت کرلیا گیا ہے ، جبکہ میں خود کو کسی دائرے کا شاعر نہیں خیال کرتا ‘‘

ایک دفعہ کسی نے احمد فرازؔ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی سوانح عمری کیوں نئی لکھی
تو احمد فراز نے کہا: آدھا سچ میں لکھنا نہیں چاہتا اور پورا سچ سننے کے لئے ابھی ہماری قوم تیار نہیں ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply