جرمِ ضعیفی کی سزا۔۔مدثر نواز مرزا

تموچن کی ماں اولون بہت خوبصورت تھی اور اسی لیے اس کا باپ یسوکائی اسے ایک پڑوس کے قبیلے سے عین اس کی شادی کے روز اٹھا لایا تھا جبکہ وہ برات کے دن اپنے ہونے والے دولہا کے خیمے کو جا رہی تھی۔تموچن کا سن جب سترہ کو پہنچا تو اس نے بورتائی نامی لڑکی سے شادی کی۔ تاریخ اسے بورتائی فوجین کے نام سے جانتی ہے جو شہنشاہ کی بیگم اور ان تین بیٹوں کی ماں بنی جنہوں نے بعد کے زمانے میں رومتہ الکبریٰ سے بڑی سلطنت کے رقبے پر حکومت کی۔ کسی روز مکریت کہلانے والے قبیلے کے لوگوں نے مغلوں پر حملہ کیا۔ یہ اس جنگجو کے رشتہ دار تھے جس کے پاس سے اٹھارہ سال پہلے تموچن کا باپ اولون کو لے اڑا تھا۔ قیاس یہ ہے کہ وہ اس پرانی رنجش کو نہ بھولے تھے۔ وہ رات کو تموچن کے ارود (خیموں والے گاؤں) میں بھڑکتی ہوئی مشعلیں پھینکتے ہوئے در آئے۔ تموچن کو اس کا موقع مل گیا کہ گھوڑے پر چڑھ کر تیر چلاتا ہوا حفاظت سے باہر نکل آئے لیکن بورتائی حملہ آوروں کے چنگل میں پھنس گئی۔ قبائلی انصاف کے مطابق انہوں نے اس کو ایک ایسے شخص کے حوالے کیا جو اس شخص کا عزیز تھا جس کے پاس سے اولون اغواء کی گئی تھی۔کچھ دنوں بعد تموچن ایک لڑائی کے بعد بورتائی کو واپس لانے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی واقعہ کے بعد ہی شاید تموچن نے ایسا کہا ہو گا کہ لوگوں نے مجھے کمزور جانا اور میری بیوی کو اٹھا کر لے گئے لیکن آج کے بعد یہ مجھے کمزور نہیں پائیں گے۔ اور پھراس کے بعد دنیا تموچن سے نہیں بلکہ چنگیز خان سے واقف ہے۔
ازل ہی سے دنیا کمزور اور طاقتور جیسے الفاظ سے شناساہے۔ اس خالقِ کائنات کی حکمتیں ہیں کہ لوگوں کی نظر میں کوئی زورآور ہے تو کوئی سست۔ عموماََطاقتور اپنی طاقت کے بل بوتے پر ظالم اور کمزور اپنی ضعیفی کی بدولت مظلوم ہے۔ دنیا نے جوں جوں تہذیب یافتہ ہونے کی منزلیں طے کیں،معاشرے میں تشکیل پانے والی خلافتیں و حکومتیں کمزور و نادار عوام کے حقوق کی ضامن ٹھہریں۔ خلیفہ اوّل نے اپنے پہلے خطبہ میں اسی کام کی انجام دہی کا عہد کیااور پھر اپنے جانشینوں سمیت اس فرضِ منصبی کو احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ترقی کی معراج کہلانے والے آج کے دور میں ہم بنیادی انسانی حقوق، برابری، حقوقِ نسواں، انصاف وغیرہ جیسے کئی الفاظ صبح و شام سنتے ہیں۔ ہر معاشرے نے اپنے خیالات اور مذاہب کی روشنی میں مختلف انواع کے قوانین بھی مرتّب کیے ہوئے ہیں لیکن کمزور و زور آور، اعلیٰ و ادنیٰ، برہمن و شودر، وڈیرہ و مزارع، چوہدری و کاما، گوراوکالا، عربی و عجمی، سویلین و فوجی، ظالم و مظلوم جیسے کردار بدستور کسی بھی معاشرے کا حصّہ ہیں اور شاید قیامت تک ایسے کرداروں کے درمیان کشمکش جاری رہے گی۔ طاقتورو معاشی برتری والا طبقہ ہر قسم کے قوانین سے مبرّاء جبکہ مفلس و کمزور ان کی زد میں ہے۔ اگر آپ جتوئی، ریٹائرڈ جنرل، توقیر صادق، ایان علی‘ اچکزئی یا آپریشن سے پہلے والی ایم کیو ایم ہیں تو جو مرضی کریں‘کسی کو قتل کر دیں، دو با ر آئین توڑیں، ملک کے ٹکڑے کر دیں، اربوں کی کرپشن کریں، غریب ٹریفک کانسٹیبل کو اپنی گاڑی تلے روند دیں‘ روزانہ پاکستان مخالف نعرے لگائیں، کوئی قانون یا عدالت، طاقتور خفیہ ادارے یاشتر بے مہار میڈیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کے برعکس اگر آپ شاہ زیب، ایان علی کیس کے تفتیشی افسر یا ولی خان بابر ہیں تو آپ کوہر حال میں مرنا ہے۔ اگر آپ نورا مصلّی یا دینو کمہار ہیں تو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی آپ کو پھانسی پہ لٹکنا ہو گااور آپ کے بچے کو کسی زمیندار کے ہاتھوں اپنے دونوں بازوؤں سے ساری زندگی کے لیے محروم ہونا ہو گا۔ کبھی آپ یہ سوچیں کہ غصّہ ہمیشہ اپنے سے کمزور پر ہی کیوں آتا ہے، کمرے کی کھڑکی یا روشن دان کسی غریب و لاچار کے گھر کی طرف ہی کیوں بنا ہوتاہے، غیرت کے نام پر قتل ہونے والا ہمیشہ کسی مزارع یا معاشرے میں کم مرتبہ سمجھی جانے والی فیملی سے ہی کیوں تعلق رکھتا ہے،اکژآگ سے جھلس کر ہلاک ہونے والی خاتون کے ماں باپ نہیں ہوتے یالواحقین انتہائی غریب ہی کیوں ہوتے ہیں‘ اونچے گھرانے کا فرد اگر چوری کرتا پکڑا جائے تو ہر کوئی اسے تھپڑ مارنے سے کیوں ڈرتا ہے،گاؤں میں کسی وڈیرے کے گھر سے پہلے گندے نالے یا بَدَر رَو کا رخ کیوں مڑا ہوا ہوتا ہے‘ سڑکیں یا گلیاں کسی خاص مقام پر اپنی معیاری چوڑائی کیوں کھو دیتی ہیں‘ کسی گاؤں کی طرف جانے والی سڑک میں بہت زیادہ تعداد میں موڑ کیوں ہوتے ہیں‘نیٹو کے ہیلی کاپٹر پاکستانی چوکی پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے تئیس جوانوں کو شہید کر دیں تو کوئی انہیں پوچھنے کی جرات کیوں نہیں کرتا، ڈرون حملے پاکستان ، صومالیہ، یمن وغیرہ میں ہی کیوں ہوتے ہیں، امریکی خفیہ ادارے کا اہلکار دوسرے ملک میں جا کر دو شہریوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور حکومت کو اسے رہا کرنے کی جلدی کیوں ہوتی ہے جبکہ آپ عارفہ صدیقی کی بات بھی نہیں کر سکتے، کوئی کمزور یا دوسروں کی امداد کی طرف دیکھنے والا ملک ہر قسم کی اشتعال انگیزی کے مقابلے میں اس طرح کا بیان کیوں دیتا ہے کہ ہم بزدل نہیں ہیں لیکن ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے؟
امریکہ، یورپ اور روس اپنی معیشت، تعلیم اور جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کی بدولت سپر پاور ہیں، سات سمندر پاردوسرے ممالک میں دراندازی کرتے ہیں اور لاچار لوگوں کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں۔ اسلامی ممالک اپنی کمزور معیشت، بدعنوانی،قانون کی حکمرانی کی عدم دستیابی ‘جدید تعلیم اور فنی مہارت سے نا آشنائی کی وجہ سے مغلوب اور مغرب کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے، مغرب کے ظلم و ستم سے نجات اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے لیے مسلم امّہ کو معیشت، جدید ٹیکنالوجی، اعلیٰ تعلیم اور خود انحصاری میں بیرونی دنیا کا مقابلہ کرنا ہو گا‘ گھوڑے تیار رکھنے کے حکم پر عمل کرنا ہو گا۔ اس کے لیے انفرادی و اجتماعی سطح پر ہر ایک کو ملت و مذہب اور آئندہ نسلوں کی خاطر ایک جذبے کے تحت اپنا کردار ادا کرنا ہو گا بصورت دیگر جرم ضعیفی کی جو سزا ہم آج بھگت رہے ہیں آئندہ نسلیں بھی یہ سزا بھگتتی رہیں گی۔ آپ بے مقصد مباحثوں میں وقت صَرف کرتے رہیں گے اور ہلاکو خاں آپ کے دروازہ پر ہو گا۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ:
؂تقدیر کے قاضی کایہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply