• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یورپ میں مہاجر مخالف مظاہرے اور اسلام فوبیاکا ایک پیچیدہ منظر نامہ/قادر خان یوسفزئی

یورپ میں مہاجر مخالف مظاہرے اور اسلام فوبیاکا ایک پیچیدہ منظر نامہ/قادر خان یوسفزئی

یورپ میں مہاجرین کی مخالفت میں مظاہرے اور اسلاموفوبیا ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ بن کر یورپی معاشروں کو تقسیم کر رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں، خاص طور پر 2025 میں، یہ احتجاج ایک نئی شدت کے ساتھ سامنے آئے ہیں، جہاں لوگوں کی بے چینی اور خوف کو سیاسی قوتوں نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ پولینڈ میں، جولائی 2025 میں،دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی کی کال پر 80 سے زیادہ شہروں میں ہزاروں لوگوں نے ”امیگریشن بند کرو“ کے نعروں کے ساتھ مظاہرے کیے، جن میں یوکرین، بیلاروس، لتھوانیا اور سلوواکیا کی سرحدوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا، کیونکہ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ مہاجرین کی آمد سے نوکریاں اور وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ مظاہرے وارسا سے لے کر چھوٹے شہروں تک پھیلے، اور ان میں کئی ہزار شرکاء شامل تھے، وسطی یورپ میں مہاجر مخالف جذبات اب صرف مشرق وسطیٰ سے آنے والوں تک محدود نہیں بلکہ یوکرینی اور دیگر پڑوسیوں تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ جرمنی میں بھی، 2025 کے دوران، میونخ اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاج دیکھے گئے۔
برطانیہ میں، اگست 2025 میں، پناہ گزین ہوٹل کے باہر مظاہرے جاری رہے، جیسے کہ فالکرک، سکاٹ لینڈ میں جہاں سینکڑوں مظاہرین آمنے سامنے ہو گئے، اور پولیس کو مداخلت کرنی پڑی تاکہ تصادم روکا جا سکے۔ یہ احتجاج برمنگھم، لیورپول اور دیگر شہروں میں بھی پھیلے، جہاں مظاہرین کا دعویٰ تھا کہ پناہ گزینوں کی وجہ سے مقامی کمیونٹیز پر بوجھ بڑھ رہا ہے، اور کئی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ آئرلینڈ میں تو یہ سلسلہ 2022 سے مسلسل جاری ہے، اور 2025 تک 476 سے زیادہ مظاہرے ریکارڈ کیے گئے، جو 65,000 سے زائد مہاجرین کی رہائش اور مقامی وسائل پر دباؤ کے خدشات کو ظاہر کرتے ہیں، اور یہاں تک کہ کچھ احتجاجی گروپس نے گاڑیوں کو روک کر شناختی کارڈ چیک کرنا شروع کردیا۔ یہ احتجاج یورپ کے دیگر ممالک جیسے سپین، ہالینڈ اور آئس لینڈ تک بھی پھیلے، جہاں مہاجرت مخالف گروپس نے مہاجرین کو ”قربانی کے بکرا” بنا کر سیاسی فائدہ اٹھایا۔ یہ سب اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ یورپ میں مہاجر مخالف جذبات کس طرح اقتصادی دباؤ، نوکریوں کی کمی اور ثقافتی تبدیلی کے خوف سے جنم لے رہے ہیں، لیکن یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ان کے پیچھے منظم سیاسی مہمات ہیں جو ان خدشات کو ہوا دے رہی ہیں، اور انتخابات میں یہ مسئلہ کلیدی رہا۔ یہ تصویر اتنی سادہ نہیں جتنی میڈیا میں پیش کی جاتی ہے۔
جرمن وزارت داخلہ کی رپورٹوں کے مطابق، پناہ گزین، مہاجر اور غیر قانونی تارکین وطن 2017 تک جرمنی کی آبادی کا تقریباً 2فیصد تھے لیکن جرائم کے ملزمان کا 8.5فیصد حصہ تھے، جو یقینی طور پر ایک عدم توازن ظاہر کرتا ہے، لیکن انفو انسٹیوٹ کی فروری 2025 کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مہاجرین کی آمد سے جرائم کی شرح میں اضافہ نہیں ہوتا، اور یہ کوئی کازل ریلیشن شپ نہیں ہے۔ 2024 کے پولیس کرائم اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی جرائم کے ملزمان میں اوور ریپریزنٹیشن ہیں، لیکن یہ آبادیاتی عوامل جیسے نوجوان مردوں کی اکثریت، غربت اور عدم انضمام سے جڑا ہے۔ مجموعی جرائم کی شرح میں 1990 کی دہائی سے کمی آئی ہے، صرف 2015-2016 میں عارضی اضافہ دیکھا گیا، اور 2025 تک یہ رجحان جاری ہے۔ مزید یہ کہ مہاجرین کچھ مخصوص جرائم کے زمروں میں زیادہ نمائندگی رکھتے ہیں، جیسے زندگی کے خلاف جرائم میں 14.3فیصد، جنسی جرائم میں 12.2فیصد اور چوری میں 11.4فیصد، لیکن یہ اصل کے لحاظ سے مختلف ہے شمالی افریقی مہاجروں کی زیادہ، شامی مہاجرین جرائم میں کم نمائندگی رکھتے ہیں۔
یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں 123,655 غیر یورپی یونین شہریوں کا داخلہ رد کردیا گیا، جو 2023 سے صرف 0.3فیصد اضافہ ہے، اور 2025 کے پہلے نصف میں 75,900 غیر قانونی کراسنگز ریکارڈ ہوئیں، جو 20فیصد کمی دکھاتی ہیں، جن میں شامی اور افغان سب سے بڑے گروپس تھے، لیکن یہ زیادہ تر امیگریشن قوانین کی خلاف ورزیوں سے متعلق ہیں نہ کہ تشدد سے۔ نیدرلینڈز کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی ڈچ شہریوں کی ملزم شرح 2017 میں 0.7فیصد تھی جبکہ کچھ مہاجر گروپس میں یہ زیادہ تھی، لیکن تمام گروپس میں 2005 سے 2017 تک ملزم شرح میں تقریباً نصف تک کمی آئی، اور یہ رجحان 2025 تک جاری ہے۔ برطانیہ میں بھی، انگلینڈ اور ویلز میں سیاہ فام لوگوں کی گرفتاری کی شرح 20.4 فی 1,000 تھی جو سفید فام لوگوں کی 9.4 سے 2.2 گنا زیادہ ہے، جبکہ ایشیائی گروپس کی 8.4 کم ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ امیگریشن کے بجائے جر ائم سماجی اقتصادی عوامل سے زیادہ جڑے ہیں، اور 2025 کی رپورٹس یہ تصدیق کرتی ہیں کہ مہاجر و مقامی گروپس میں جرائم کی شرح میں کمی آئی ہے۔مہاجرین کو جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک آسان کہانی ہے، لیکن حقیقت میں یہ آبادیاتی اور اقتصادی عوامل کا نتیجہ ہے، اور یورپ میں مجموعی جرائم کی شرح کم ہو رہی ہے۔
ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ مغربی میڈیا میں توجہ زیادہ تر مغربی متاثرین پر ہوتی ہے، لیکن داعش نے مسلمانوں کو ہی سب سے زیادہ نشانہ بنایا ہے۔ گلوبل ٹیررزم انڈیکس 2025 کے مطابق، داعش اور اس کی افیلیٹس دنیا کی سب سے مہلک ٹیررسٹ گروپ بنی رہیں، اور مارچ 2023 سے مارچ 2024 تک داعش نے عالمی سطح پر 1,121 حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں تقریباً 4,770 لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے، اور ان کی اکثریت مسلمان تھے۔ 2024-2025 افریقہ، شام اور افغانستان میں داعش کی دھمکی جاری رہی، حملوں میں اضافہ دیکھا گیا، اور دہشت گرد حملوں کی تعداد 58 سے بڑھ کر 66 ممالک تک پہنچ گئی۔ یہ حملے زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقوں جیسے نائیجیریا، شام، عراق اور افغانستان میں ہوئے، جہاں داعش نے شیعہ مسلمانوں، اعتدال پسند سنی علماء اور مخالف شہریوں کو منظم طور پر نشانہ بنایا۔ داعش کی نسل کشی کی مثال یزیدی کمیونٹی ہے، جہاں کم از کم 5,000 کو قتل اور 6,417 کو عراق میں اغوا کیا گیا، اور 2025 تک یہ اثرات جاری ہیں۔ تاریخی طور پر، 2014-2017 کے دوران عراق اور شام میں ہزاروں مسلمان نشانہ بنے، صرف 2016 میں عراق میں 932 حملے ہوئے جن میں بنیادی طور پر مسلم شہری مارے گئے، جیسے بغداد کے کرادہ میں 380 شہریوں کی ہلاکت، اور 2025 میں بھی داعش کی پروپیگنڈا مسلمانوں کو”مرتد“ کہہ کر حملے کرتی رہی۔ یہ اعداد و شمار اس امر کی یاد دہانی ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی مسلمانوں کو ہی سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، اور یورپ میں اسلاموفوبیا کو ہوا دینے والے یہ خوف بہت حد تک غلط فہمی پر مبنی ہیں، کیونکہ داعش کی دھمکی اب بھی عالمی ہے لیکن اس کا نشانہ زیادہ تر مسلمان ہی ہیں۔
یورپ میں اسلاموفوبیا کے شماریاتی ثبوت اسے مزید واضح کرتے ہیں کہ یہ ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، اور 2025 تک یہ اضافہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ یورپی یونین ایجنسی برائے بنیادی حقوق کے 2024 سروے کے مطابق، EU میں 47فیصد مسلمانوں نے امتیازی سلوک کا تجربہ کیا، جو 2016 کے 39فیصد سے نمایاں اضافہ ہے، اور 2025 میں یہ رجحان جاری رہا جیسا کہ جون 2025 کی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی میں اسلاموفوبیک واقعات میں تیزی آئی، جہاں 2024 میں 3,000 سے زیادہ واقعات ریکارڈ ہوئے۔ ملازمت میں 39فیصد مسلمانوں نے نوکری کی درخواست کے دوران امتیازی سلوک رپورٹ کیا، جو مذہبی لباس پہننے والی خواتین کے لیے 45فیصد تک ہے، اور یہ 2025 تک مزید بڑھا جبکہ اکتوبر 7، 2023 کے بعد سے اسلاموفوبیا میں اضافہ دیکھا گیا۔ رہائش میں بھی 35فیصد کو امتیازی سلوک کا سامنا پڑا، جو 2016 کے 22فیصد سے بڑھا ہے، اور جغرافیائی طور پر، آسٹریا میں 71فیصد، جرمنی میں 68فیصد اور فن لینڈ میں 63فیصد سب سے زیادہ شرح ہے، جبکہ سویڈن میں 22فیصد، سپین میں 30فیصد اور اٹلی میں 34فیصد کم، لیکن 2025 کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ شرحیں اب بھی بڑھ رہی ہیں۔
نفرتی جرائم کے اعداد و شمار بھی تشویشناک ہیں، آسٹریا میں 2021 میں مسلمانوں کے خلاف 812 نفرتی جرائم رپورٹ ہوئے، فرانس میں 2023 میں 30فیصد اضافہ، اور جرمنی میں 2023 میں واقعات دوگنے ہو گئے، جبکہ 2025 میں برٹش پارلیمنٹ میں بحث ہوئی کہ یورپ بھر میں خاص طور پر غزہ تنازع کے بعد اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ انتہا پسند حملوں میں کمی کے باوجود ہے، جو بتاتا ہے کہ اسلاموفوبیا حقیقی سیکیورٹی خدشات سے الگ ہے اور یہ ایک سماجی تعصب ہے جو مسلمانوں کوجیسے سکولوں، کام کی جگہوں اور عوامی مقامات پر روزمرہ زندگی میں متاثر کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے سیاق میں دیکھیں تو یوروپول کے 2025 رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 میں EU میں 58 ٹیررسٹ حملے ہوئے، جن میں 34 مکمل ہوئے، 5 فیل ہوئے اور 19 روکے گئے، اور جہادی حملے کم تھے لیکن مہلک، جبکہ نسلی قوم پرست گروپس کے حملے زیادہ تھے۔ جہادی حملوں نے شہریوں کو نشانہ بنایا تاکہ تقسیم پیدا ہو، لیکن داعش نے مسلمانوں کو ہی ”مرتد” کہہ کر نشانہ بنایا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتہا پسندی مسلم کمیونٹیز کو ہی کمزور کرتی ہے، اور 2025 تک یہ دھمکی جاری ہے۔ جو یورپ، برطانیہ اورامریکہ میں بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہروں کی صورت میں نسلی تقسیم کا سبب بن رہا ہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply