انصاف کا نقیب ۔۔رعایت اللہ فاروقی

ترقی یافتہ ممالک میں منظم جرائم اور دہشت گردی کی سرکوبی قانون کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق ہوتی ہے اور کامیاب ثابت ہوتی ہے. اس کامیابی میں بنیادی کردار اس چیز کا ہے کہ وہاں سسٹم مضبوط ہے، مجرموں کو سیاسی سر پرستی حاصل نہیں ہوتی اور وہاں کسی این آر او کے نتیجے میں راتوں رات ہزاروں مجرم نہیں چھوٹتے. ان ممالک نے نظام کی یہ مضبوطی صدیوں کے ارتقاء کے نتیجے میں حاصل کی ہے.

اگر آپ امریکی تاریخ کا جائزہ لیں تو ڈیڑھ دو صدی قبل وہاں بئیر کے ایک گلاس کے لئے ہی بندہ مار دیا جاتا تھا کیونکہ وہاں بندہ مارنا اور چڑیا مارنا برابر ہو چکا تھا. جرائم کی اسی شدت کے باعث وہاں مفرور اور نو گو ایریاز میں موجود قاتلوں کی سرکوبی کے لئے “باؤنٹی ہنٹنگ” کی ترکیب نکالی گئی. عدالت ایسے قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے ان کے سر کی قیمت مقرر کر دیتی اور اس کے اشتہارات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر پر چسپاں کر دیتی. کوئی بھی شہری یا سرکاری اہلکار ان قاتلوں کو قتل کرکے اس کی لاش سرکار کے پاس لے آتا اور اسی وقت قیمت وصول کر لیتا. وقت کے ساتھ ساتھ یہ باقاعدہ پیشہ بن گیا، چنانچہ امریکی تاریخ میں ایسے کئی بڑے نامی گرامی “باؤنٹی ہنٹرز” گزرے ہیں جو سارا سال دھندہ ہی یہی کرتے تھے. باؤنٹی ہنٹنگ کچھ ترمیم کے ساتھ آج امریکی سسٹم کا حصہ ہے. بلیک واٹر جیسی تنظیمیں در حقیقت باؤنٹی ہنٹنگ کی ہی تنظیمیں ہیں جو عراق اور افغانستان میں یہی دھندہ کرتی رہی ہیں اور آج بھی سرگرم ہیں.

دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لئے ہمیں بنیادی مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ ایک تو جنگ کے میدان سے شواہد، ثبوت اور گواہ اکٹھے کرنے ممکن نہ تھے اور جن کے خلاف ثبوت، شواہد اور گواہ موجود ہوتے ان کے خلاف عدالتی مقدمے بازی میں پراسیکیوشن اور جج دونوں ہی خوف کا شکار ہوتے. کئی پراسیکیوٹر مارے گئے اور کئی ججز پر بھی حملے ہوئے. نتیجہ یہ کہ بہت سے جج مستعفی ہو گئے اور کئی تو ملک بھی چھوڑ گئے. چنانچہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے دو حل نکالے گئے. جن کے خلاف ثبوت، شواہد اور گواہ موجود تھے ان سے نمٹنے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں جبکہ ڈیڑھ شانڑوں کے لئے پولیس مقابلے کی راہ اختیار کر  لی گئی. نواز شریف دور حکومت میں دہشت گردی کو اسی لگام سے قابو کیا گیا ہے. اس حکمت عملی نے تین سال میں زبردست نتائج مہیا کئے ہیں. ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز، لیاری گینگ وار، ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی، سپاہ محمد اور بلوچ عسکریت پسندوں کی بیخ کنی اسی طریقہ کار سے ممکن ہوئی ہے اور یہ ایسی غیر علانیہ قومی حکمت عملی ہے جس کے حوالے سے ملک کے تمام اہم ادارے آن بورڈ ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

اس حکمت عملی کی کامیابی میں اہم ترین کردار اس بات کا رہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ کوئی بے گناہ اس کا نشانہ نہ بنے. چنانچہ عوام یا اداروں نے بھی کبھی کوئی سوال نہیں اٹھایا. لیکن اس حکمت عملی کو آج پہلی بار راؤ انوار جیسے درندے کی وجہ سے سوالات کا سامنا ہے. نقیب اللہ کے خون ناحق نے اس حکمت عملی کے تخلیق کاروں کی ذمہ داریاں بڑھا دی ہیں. انہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ راؤ انوار کے تمام پولیس مقابلوں کا آڈٹ کرکے اس درندے کو عبرت کی مثال بنانا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کی سرکوبی کی آڑ میں کسی کو اپنے ذاتی ایجنڈے پورے کرنے کی جرات نہ ہو. راؤ انوار کو عبرت کی مثال بنا کر قوم کا اعتماد بحال کرنا لازم ہے ورنہ رد عمل کی موجودہ عوامی لہر کا فائدہ صرف اور صرف دہشت گردوں کو ہوگا. نقیب اللہ کو ریاست نے نہیں ایک خود سر درندے نے مارا ہے اور ریاست اس درندے کے ساتھ درندوں کے لئے مخصوص سلوک کرکے ثابت کرے کہ دہشت گرد وردی میں ہی کیوں نہ ہو اسے بخشا نہیں جائے گا. نقیب اللہ کے خون کو سرکاری درندوں کے خلاف انصاف کا نقیب بنائیے !

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply