زینب کا قاتل یہ نظام بھی ہے۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

ہم وحشتوں کے سفیر ہیں،ہیجان پسند معاشرے کے افراد۔آئے روز کوئی نہ کوئی ہیجان خیز معاملہ ہمارے نفسیاتی ذوق کی تسکین کرتا ،نئے واقعے کی راہ ہموار کر رہا ہوتا ہے ،ہم مگر روایتی مذمتی بیانات،اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کو فالو کر رہے ہوتے ہیں۔اپنی اصل میں ہم سب قریب قریب ایک سے ہی ہیں۔ ایک ہی سماج کے باسی، ایک ہی طرح کے قانون کے پابند۔زینب کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہاں اس خاص واقعے کو خاص توجہ ملی۔ بے شک ظالم اور قاتل کو اپنے بد انجام سے دوچار ہونا چاہیے۔ لیکن کیا کبھی ہم نے پیچھے مڑ کر بھی دیکھا ہے؟کیا ہمیں یاد ہے لاہور کا ایک سیریل کلر جس کا نام غالباً جاوید تھا۔ جس نے ایک سو(100) بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے ان کا قتل کیا تھا۔اس کا انجام کسی کو یاد ہے؟ اسے کب سزا ہوئی؟کون سی جیل میں رہا؟سزائے موت بھی ہوئی یا رہا کر دیا گیا؟شاید کسی کو کچھ معلوم نہ ہو ،سوائے چند وکلا یا اس نوع کے واقعات پہ تحقیق کرنے والے افراد کے۔
کیا کسی کو یاد ہے قصور میں ہی بچوں سے جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنانےکا سکینڈل منظر عام پہ آیا تھا۔ خادم اعلیٰ و “ارفع” نے انگلی گھما گھما کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کی تھی۔ شنید ہے کہ اس کیس میں کوئی مقامی سیاستدان بھی ملوث تھا،جو ملزمان کا پشت بان تھا۔کیا ان ملزمان کو سزا ہوئی؟بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات صرف قصور میں ہی نہیں ہو رہے بلکہ پورے ملک میں تسلسل سے ہو رہے ہیں اور افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ زینب کے واقعے کو جب سے میڈیا نے توجہ دی، ایسے واقعات میں مزید تیزی آئی۔کیا یہ تیزی دانستہ ہے؟ نہیں واقعا ت کا تسلسل وہی ہے، مگرمیرا خیال ہے اب لوگوں کے اندر جرات آ گئی ہے، اور موہوم سے امید بھی کہ انھیں انصاف ملے گا۔ بچوں کے والدین واقعات کو رپورٹ کر رہے ہیں۔  وگرنہ افسوس ناک واقعات تو پہلے بھی ہوتے تھے، لیکن لوگ اپنی آبرو کی خاطر خاموش ہو جاتے تھے یا پھر خاموش کرا دیے جاتے تھے۔زینب قتل کیس کے حوالے سے پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت نے گرجدار دعوے کیے، مگر نتیجہ پھر وہی جو ہمیشہ سے اس سماج کی پہچان ہے۔

یہ پڑھیں  کیا پنجاب صرف ایک شہر کا نام ہے؟۔۔محمد اظہار الحق

پولیس اپنی کوششیں کر رہی ہے اور نتائج معلوم۔ اسی لیےسپریم کورٹ نے زینب قتل کیس میں تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹے کی مہلت دے دی۔خیال رہے کہ تحقیقاتی اداروں کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے کے لیے عدالت سے مہلت مانگی گئی تھی، جس پر عدالت کے فل بینچ نے بند کمرے کی کارروائی کے بعد تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اداروں کو مہلت دینے کا حکم دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی، جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔سماعت کے دوران زینب کے چچا اور ریپ کے بعد قتل کیے گئے دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین بھی پیش ہوئے۔سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم نے عدالت کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ واقعہ 4 جنوری کو پیش آیا، جب زینب شام 7 بجے گھر سے قرآن پڑھنے کے لیے نکلی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ زینب اپنی خالہ کے گھر قرآن پڑھنے جاتی تھی، جو 300 میٹر کی دوری پر ہے، کمیٹی نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ زینب کا بھائی عثمان اسکے ساتھ جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا۔تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ جب زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو اسکے گھر والوں نے تلاش شروع کردی اور 9 بج کر 30 منٹ پر پولیس کو 15 کے ذریعے اطلاع دی گئی۔ کمیٹی نے معزز عدالت کو یہ بھی بتایا کہ جون 2015 سے اب تک 8 واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے، جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئے، پولیس کیا کر رہی تھی؟ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ ہم نے 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے، جس میں سے 8 ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہوئے ہیں۔جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو پولیس کر رہی ہے ،اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ پڑھیں پیغام ِ پاکستان فتویٰ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

کس قدر تکلیف دہ بات ہے ،قصور کی پولیس یہ تو جان چکی کہ 8 واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے مگر پولیس اسے گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔800 مشتبہ افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی منطق کیا ہے؟ کیا پولیس سماج کے دیگر افراد کو بھی نفیساتی طور پہ زچ کر کے اسی راہ پہ ڈالنا چاہتی ہے؟ایک قومی انگریزی روزنامے کی خبر کے مطابق مظلوم و مقتول زینب کے والدین سے ڈی این اے ، کے پیسے مانگے جا رہے ہیں۔ یہ ہے وہ نظام انصاف،یہ ہے حکومتی دعووں کی اصل شکل، یہ ہے خادم اعلیٰ کی خدمت گذاری۔زینب ہو یا کوئی اور معصوم کلی، عبد اللہ ہو یا فرہاد،سب کے قاتل کا مشترک نام” نظام ” ہے، وہ نظام جو ریاستی قانون کی شکل میں غربا و مساکین اور کمزوروں پر مضبوط گرفت کرتا ہے مگر زور آوروں کے لیے گنجائش نکال لیتا ہے۔زینب کے قاتل اگر پولیس چاہے تو گھنٹوں میں گرفتار کر سکتی ہے۔ مشتبہ شخص کی ہر روز نئی ویڈیو جاری کرنے کا ایک مقصد کیس کو الجھا کر کسی کو بچانا بھی تو ہو سکتا ہے۔بے شک اپنے بچوں کی حفاظت والدین کی ذمہ  داری ہے مگر کیا ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں اپنے شہریوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے؟ریاست ا گر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی تو آج جگہ جگہ مختلف مافیاز اپنے پنجے مضبوط نہ کر چکے ہوتے۔آئیے سارے مقہور  و مظلوم ، کمزور و بے کس یکجان و یک آواز ہو کر ظلم کے نظام کی بنیادیں ہلا دیں۔زینب کا قاتل کوئی ایک شخص نہیں، ایک پورا نظام ہے، عدل سے عاری نظام۔طاقت وروں کا پشت بان نظام۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply