نواز شریف سٹھیا گیا ہے؟۔۔محمد منیب خان

پاکستانی سیاست انٹرٹینمنٹ کے سارے اصولوں پہ پورا اترتی ہے۔ اس میں ن لیگ کی فنکاریاں ہیں، پیپلزپارٹی کی قلابازیاں ہیں،  جمیعت علمائے اسلام کی سخت مزاجیاں ہیں، اور تحریک انصاف کی کارکردگی کینشانیاںہیں۔ آئے روز سیاسی درجہ حرارت  تبدیل  ہوتا رہتا ہے۔ یوں تو اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کو قائم ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے لیکن تین مارچ کے سینیٹ انتخابات کے بعدحالات نے اتنی تیزی سے کروٹ لی کہ ہر سیاسی منظر نامے کا ہر ہر سین کلائمیکس محسوس ہونے لگا۔ یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ کا انتخاب جیتنا، پھر عمران خان کا اعتماد کا ووٹ لینا، پھر صادق سنجرانی کا چئیرمین سینیٹ بننا اور اس کے بعد یوسف رضاگیلانی کا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نامزد ہونا یہ سب واقعات ہیں جو ایک تسلسل کے ساتھ پاکستانی سیاست کو فالو کرنے والوں کومحو رکھے ہوئے ہیں۔ اس سیاسی منظر نامے میں ایک کے بعد ایک رونما ہوتے کلائمیکس میں جو چیز کسی حد تک توجہ حاصل نہ کرپائی وہ نواز شریف کا گذشتہ ہفتے رائیونڈ میں مسلم لیگ ن کے یوتھ ونگ کنونشن سے خطاب تھا۔ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا نے اسکوکوئی خاص کوریج نہیں دی۔ جبکہ سوشل میڈیا پہ بھی سنجیدہ حلقوں میں یہ زیر بحث نظر نہیں آیا۔

نواز شریف کا پاکستانی سیاست میں متحرک کردار چالیس سال سے زیادہ کا ہے۔ نواز شریف کی سیاست کی ابتدا سے اس ملک کابچہ بچہ واقف ہے۔ 90  کی دہائی کی سیاسی آنکھ مچولی بھی سب کو از بر ہے۔ البتہ 99کے مارشل لا ء کے بعد سے نواز شریف کے لہجے میں کسی حد تک تلخی در آئی تھی۔ جس کا ثبوت اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دیے گئے چند انٹرویوز اور جلسوں کی تقریریں ہیں۔ البتہ 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دو تہائی اکثریت رکھتے ہوئے بھی نواز شریف وہ سب کچھ نہ کر سکا جن کااظہار وہ اس سے پہلے تقریروں اور انٹرویوز میں کر چکا تھا۔ مشرف کا ٹرائل قصہ پارینہ بنا۔ ڈان لیکس پہان کےکہنے پہ اپنےدیرینہ ساتھی کو وزرات سے فارغ کیا، مشاہد اللہ جیسے ساتھی اور وزیر کو محض ایک بیان کی وجہ سے وزرات سے رخصت ہوناپڑا۔ لیکن عدالت سے معزول ہونے کے بعد مجھے کیوں نکالا سے لے کر پی ڈی ایم کے گوجرانولہ والے جلسے تک نواز شریف کا لب ولہجہ یا تو ترش رہا یا وہ بالکل خاموش رہے۔ نواز شریف جب تک جیل نہیں گئے تھے تب تک پوچھتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا، جیل جانے جے بعد اور کلثوم نواز کی وفات سے نواز شریف کی خاموشی کو جواز فراہم کیا گیا۔ البتہ ملک سے جانے کے بعد پی ڈی ایم کےگوجرانولہ کے جلسے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف نے اپنی ساری کشتیاں جلا دی ہیں۔ جس طرح وہ ببانگ دہل نام لینےلگا اس سے پہلے اس ملک میں اس طرح کی کوئی روایت موجود نہیں اور حاضر سروس جرنیلوں  کا نام لینے کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا ماسوائے وقت کے کسی آمر حکمران کا۔ حتی کہ ایک بار زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کے چکر میں  ڈیڑھ سال دبئی میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھے رہے تھے۔ لہذا نوازشریف کا لب لہجہ اس سیاست میں، اس معاشرے میں بالکل نیا ہے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چالیس سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم رہنے والا تین بار کا وزیراعظم نواز شریف بھولا ہے تو یہ بات کہنے والا غالباً خود بھولا ہوگا۔ نواز شریف کا ملک سے نکلنا یقیناً کوئی خدائی فیصلہ نہ تھا البتہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف کے ملک سے نکلنے کے بعد کچھ ایسی وعدہ خلافی ضرور ہوئی ہے جس کے بعد نواز شریف نے اپنی کشتیاں جلا دیں اور نواز شریف نے ایک جارحانہ انداز اپنا لیا۔ رائیونڈ کے حالیہ جلسے میں نواز شریف کا خطاب اور لب لہجہ شدید جارحانہ تھا۔ البتہ نواز شریف نےکسی جرنیل کا نام لیے بنا سب کچھ ایسے بیان کر دیا کہ کسی کے لیے کچھ سمجھنا مشکل نہ رہا۔ اس پہ مستزاد کیپٹن صفدر نےباقاعدہ نام لے کر نہ صرف نعرے لگوائے بلکہان کیمبینہ کرپشن پہ کھل کر اظہار خیال کیا۔ نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے ایک مقام پہ کہا کہیہ ملک کسی کی ذاتی جاگیر نہیں جو پلاٹ تقسیم کرتے پھریں یہ ملک اگر کسی کی جاگیر ہے تو وہ آپ بائیس کروڑعوام کی جاگیر ہے۔ اس کے بعد کسی شخص یا ادارہ کا نام لینے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ لوگوں کے خیال میں تین بار کےوزیراعظم نے ایک تقریر کی اور سارے میڈیا چینل نے بلیک آؤٹ کیا تو وہ سمجھے کہ شاید لوگوں کو خبر ہی نہیں ہوئی ہو کہ نوازشریف نے کیا کہا۔ لیکن ایسا  نہیں ہوا لوگوں کو خبر ہوئی اور خوب خبر ہوئی، اسی لیے گذشتہ چند دن سے ہر طرف ڈی ایچ اے ملتا ن کی  ہاہا  کار مچ گئی۔ سمجھنے والوں کے لیے اس میں بیشک سمجھ کا سامان موجود ہے۔

نواز شریف گوجرانولہ کے جلسے کے بعد سے جو باتیں کہہ رہا ہے ان باتوں کو سوشل میڈیا کے دور میں محدود رکھنا ممکن نہیں۔ نوازشریف کا لب لہجہ بتاتا ہے کہ اب سیز فائر بھی اتنا سستے میں نہیں ہوگا اور مجھ سے کج فہم تو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ووٹ کوعزت دو کی جنگ اب نواز شریف ہی لڑے گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایک بار پھر ڈیل ہو جائے گی۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے۔ جس لب و لہجے میں، جس شد و مد سے میاں صاحب جرنیلوں کے نام لے رہے ہیں اس کے بعد ڈیل کی گنجائش کیسے بچتی ہے؟ ادارے کا تو اصول ہے کہ وہ اپنے ریٹائرڈ بندے (مشرف) کو بھی مکھن سے بال کی طرح نکال لیتے ہیں تو نواز شریف کا حاضر سروس جرنیلوں کے خلاف کھولا محاذ کیسے کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے؟ مجھ ایسا  کم فہم اس سوال کا ہی جوا ب ڈھونڈ  رہا ہے۔

رائیونڈ مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کنونشن سے خطاب سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ نوازشریف اب محض بیان بازی نہیں کر رہا۔ وہ محض شہہ سرخیوں میں نہیں رہنا چاہتا۔  بلکہ وہ ان مسائل پہ قوم کو ویسے ہی ایجوکیٹ کر رہا ہے جیسے ایک دور میں عمران خان کیا کرتا تھا۔ لیکن عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو اس طرح عوامی سطح پہ ڈسکس نہیں کیا۔ نواز شریف کےخطابات ایک عام ریڑھی بان، مزدور، کسان، خوانچہ فروش کو ایجوکیٹ کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص کرداروں کوٹاک آف دی ٹاؤنبنا دیا ہے۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ان کرداروں کو ویسے ہی کرپشن کے کٹہرے میں لا کھڑا کیاہے جس کرپشن کے کٹہرے میں اسٹیبلشمنٹ  نے نواز شریف کو رکھا ہوا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ  اتنی نالائق نہیں کہ وہ ان تقریروں کےمضمرات کو نہ سمجھ سکے۔ البتہ مجھ ایسے لوگ جو جمہوریت کو اصل روپ میں بحال دیکھنے کے خواہاں ہیں ان کی امیدوں کےچراغ ایسی تقریروں سے جلتے رہتے ہیں۔ جبکہ باقیوں کا خیال ہوتا ہے کہ نواز شریف سٹھیا گیا ہے۔ ممکن ہے نواز شریف سٹھیا گیاہو۔ وہ محض اپنی ذات اور اپنے جماعت کو بچانے کے لیے اس نہج تک جا رہا ہو۔ لیکن میں یہ کیسے مان لوں کہ ان تقاریر کےمضمرات سے نواز شریف نے خبر ہوگا یا خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ سب ہضم کرنا کیسے آسان ہوگا؟

چند روز قبل ن م راشد کی ایک نظم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ تحریر اس نظم کی دین ہے۔ اگر یہ نظم میں نے نہ پڑھی ہوتی تو شاید اس تحریر کا خیال قلمبند نہ ہوتا۔ نظم کا عنوان ہےسپاہی۔

تو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟

موت کا لمحہ مایوس نہیں،

قوم ابھی نیند میں ہے!

مصلح قوم نہیں ہوں کہ میں آہستہ چلوں اور ڈروں قوم کہیں جاگ نہ جائے،

میں تو اک عام سپاہی ہوں ، مجھے

حکم ہے دوڑ کے منزل کے قدم لینے کا

اور اس سعی ء  جگر دوز میں جاں دینے کا

تو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟

تو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟

راہ میں اونچے پہاڑ آئیں گے

دشتِ بے آب و گیاہ

اور کہیں رودِ عمیق

بے کراں، تیز و کف آلود و عظیم

اُجڑے سنسان دیار

اور دشمن کے گرانڈیل جواں

جیسے کہسار پہ دیودار کے پیڑ

عزت و عفت و عصمت کے غنیم

ہر طرف خون کے سیلاب رواں

اک سپاہی کے لیے خون کے نظاروں میں

جسم اور روح کی بالیدگی ہے

تو مگر تاب کہاں لائے گی

تو مرے ساتھ مری جاں، کہاں جائے گی؟

دم بہ دم بڑھتے چلے جاتے ہیں

سر میدان رفیق،

تو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟

عمر گزری ہے غلامی میں مری

اس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!

زمزمے اپنی محبت کے نہ چھیڑ

اس سے اے جان پر وبال میں آتا ہے جمود

میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست

آسمانوں سے بھلا آئے گی؟

دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول

میرے محبوب وطن کو یہ نکل جائیں گے؟

ان سے ٹکرانے بھی دے

جنگ آزادی میں کام آنے بھی دے

Advertisements
julia rana solicitors london

تو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply