آؤ! ڈوب مریں.

تحریر: نعیم الدین جمالی
زندگی کے گذرتے لمحات اور دوران ایام میں کتنی صبحیں اور شامیں بیت جاتی ہیں، کبھی کبھی یہ صبح یا شام بڑی یاد گار ہوتی ہے، یا ان میں ایسے المناک یا دل جلانے والے واقعات رونما ہوجاتے ہیں جن کی بدولت وہ صبح یا شام دل میں تیر کی مانند پیوستہ ہوجاتے ہیں، جن سے انسان خوشیوں کے بجائے غموں میں گھر جاتا ہے، سرور ونشاط کی جگہ افسردگی طاری رہتی ہے،
میری کل کی شام ہی ایسی دردناک والمناک گذری ، جس سے میرا دل زخمی زخمی ہے، ذہن ماوف اور عقل وفکر بے حس وحرکت ہے،
کل کی وہ شام جب کراچی میں دن کا تھکا ماندہ سورج سمندر سے گلے لگ کر اہل کراچی کو الوداع کر رہا تھا، سیر وتفریح کرنے والے لوگ ساحل سمندر پر لطف اندوز ہورہے تھے، ڈوبتے سورج کے کی کرنیں پانی پر دلہن کی زیور کی مانند چمک رہی تھیں، ابھرتی لہروں پر سورج کی الودائی شعاوں سے ایک عجیب منظر کا سماں تھا، تیز ہواوں کی بدولت بھینی بھینی مٹی کی خوشبو سے کراچی مجلس زعفران کی مانند مہک رہا تھا،
رات کی سائے لمبے ہورہے تھے، لوگ کاموں سے فارغ ہوکر تھکے ماندے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے، میں سپر ہائے وے کے ایک کوئٹہ وال ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لیتے کراچی کو الوداع کرنے والے مسافروں کو ٹکٹی باندھ کر دیکھ رہا تھا،اچانک بے وقت ایک دوست اسحاق مہیری کا میسج موبائل کی اسکرین پر نمودار ہوا،
میسج تھا کہ "فیس بک پر ایک لنک آپ کو بھیجا ہے، اس پر کچھ لکھ کر انسانیت کے ساتھ ہمدردی کا ثبوت دیں . "
میسج کی سنسنی نے مجھے فوراََ فیس پر بک لاگ ان ہونے پر مجبور کیا، طبیعت بھی بوجھل تھی اور فیس بک پر آنے کا دل بھی نہیں چاہ رہا تھا،
دوست کے مسیج کی خاطر ڈیٹا آن کیا اور اس لنک کو تلاش کرنے لگا، تھوڑی ہی فرصت میں مطلوبہ لنک میسر ہوگیا لیکن اس لنک کو کھولنے کے بعد میرا وجود کانپ گیا، جسم کے روئیں روئیں پر کپکپی طاری ہوگئی، میرا جسم لاش کی طرح بے حرکت ہوگیا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،
چائے سامنے پڑی پڑی ٹھنڈی ہوگئی میں مزید ایک گھونٹ بھی نہ لے سکا خبر یہ تھی کہ:
"سانگھڑ کے قریب جنونی زمیندار کا کسان کی بیوی پر تشدد ، گود میں دودھ پیتا دو سالہ الطاف زمیندار کی لاتیں اور ٹھدے لگنے کے سبب جان بحق "
الطاف کی ماں کا کیا قصور تھا؟
الطاف نے کیا جرم کیا تھا؟
معصوم کلی کو کھلنے سے پہلے ہی کیوں روندا گیا؟
الطاف کی ماں نے زمیندار سے صرف یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ تھوڑی سی اجازت دے کہ وہ بھوک سے بلکتے الطاف کو اپنی خشک چھاتی سے دودھ کے بہانے چمٹا کر خاموش کرا دے ،
ظالم زمیندار نے اس کی بھی اجازت نہیں دی،ماں سے برداشت نہ ہوا وہ اٹھ کر الطاف کو دودھ پلانی لگی،
پھر اس زمیندار نے جو حرکت کی،اس پر انسانیت لزر گئی، آسمان سرخ ہوگیا، انسان حیوانیت کی ساری راہیں عبور کر چکا،
یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے، سندھ وپنجاب کے ظالم زمیندار اور بے حس وڈیرروں کے اس طرح کے انسانیت سوز مظالم سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں،
سیاسی طاقت کی بنا پر ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جاتی، اگر کوئی یہ جرات بھی کر لے تو وہ اس کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن وناممکن کام کر گزرتے ہیں،
یہ واقعہ بے حس معاشرے اور ظالم سماج پر زور دار طمانچہ ہے،
انسانیت کے نام پر دھبہ اور حیوانیت کو شرم شار کرنے کی کہانی ہے،
معصوم سی اس مرجھائی ہوئی کلی کا یہ سوال ہے میرا جرم کیا تھا؟
غربت کی ماری جمیلہ سولنگی کی اداسی سوال کرتی ہے کہ کیا میرے حقوق نہیں؟
میرے بچے انسان نہیں؟
کیا مجھے انصاف ملے گا؟
وڈیرا شاہی سسٹم کے اس چنگل میں میری جیسی کتنی جمیلائیں ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں کیا ان کو انصاف ملے گا؟
الطاف جیسے ہزاروں معصوم بچوں کا خون کس کر سر ہوگا؟
صرف زمیندار پر یا بے حس معاشرے پر؟
اگر ہمارے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تو میرا مشورہ ہے "آؤ ڈوب مریں "!!!

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply