ڈریم الیون اور امیری کے خواب۔۔ایس معشوق احمد

ہر شخص کے اندر امیر بننے کی چاہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ محنت نہیں کرتا بلکہ مدت ِ قلیل میں اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتا ہے۔کوئی لاٹری میں اپنی قسمت آزماتا ہے تاکہ اپنے دیکھے ہوئے سپنوں کو، جن میں وہ سیٹھ اور لکھ پتی ہوگیا تھا، حقیقت کا روپ دے ۔تو کوئی مختلف پروگراموں میں حصہ لے کر کروڑ پتی بننا چاہتا ہے۔کروڑ پتی تو ہر ایک نہیں بنتا، ہاں مگر مرد حضرات پتی پرمیشور کے سنگھاسن پر ضرور بیٹھ جاتے ہیں۔ جُوا بھی اسی خواہش کی تکمیل کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ زمین ،جائیداد اور گھربار ہار کر بھی یہ لَت   نہیں چھوٹتی اور وہ لگاتار اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ کسی نہ کسی دن جیت اس کے گلے لگ ہی جائے گی۔

اس بُرے فعل  میں پڑ  کر بدنامی،رسوائی اور جواری جیسے طعنوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔ امیر بننے اور زر کے حصول کے لیے انسان ہر روکاوٹ  کو دور کرتا ہے۔وہ صرف چاہتا ہے کہ پیسے آئیں  جس کے لیے وہ طریقوں کی پرواہ نہیں کرتا۔جائز یا ناجائز طریقوں سے وہ صرف اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے۔چوری ،سمگلنگ اور اس قبیلے کی دیگر واردات کو انجام دینے سے بھی ایسے بشر گریزاں  نہیں ۔تیز رفتاری سے امیر بننے کے لیے پہلے سٹہ بازی کا سہارا لیا جاتا تھا اب یہ ذمہ داری ڈریم الیون نامی اپلیکیشن نے اٹھائی ہے۔ اس اپلیکیشن نے سٹے کو مباح کا لباس پہنایا ہے۔اس کے ذریعے ہر عمر کا فرد گھر بیٹھے دو ٹیموں میں سے اپنی ایک ٹیم کا انتخاب کرکے زر جتنے اور مدت قلیل میں امیر بننے کی دوڈ میں شامل ہوجاتا ہے۔جیتنے کے شوق میں کام کاج سے منہ موڑ لیتا ہے۔ اس اپلیکیشن کے ساتھ مصروف رہ کر جیتنے کی آرزو میں اپنے پیسے، وقت اور دماغ لگا دیتا ہے۔ہر وقت اسی میں کھویا رہتا ہے۔بار بار اپنی پوزیشن کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ خود کو جیت کی طرف بڑھتا دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے اور ہار کا ہار اپنے گلے میں دیکھ کر کبیدہ خاطرہ ہوجاتا ہے۔ہر دن امید کا ہاتھ پکڑ کر اسی خیال سے ٹیم کا انتخاب کرتا ہے کہ کبھی نہ کبھی سوئی ہوئی قسمت جاگ جائے گی اور وہ جیت جائے گا۔ ہر روز کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ وہ سپنے پورے ہوں ،جو ابھی تک ادھورے رہے ہیں۔ ڈریم الیون میں اپنی ٹیم بنا کر ‘ ڈریم ‘کی وادی کی سیر کرتے کرتے اکثر اسی حالت میں اونگھنے لگتا ہے ۔خواب دیکھتا ہے کہ وہ ایک کروڑ کا مالک بن گیا ہے۔طرح طرح کے منصوبے بناتا ہے۔گاڑی خریدنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرتا ہے۔مختلف قِسم  کی گاڑیوں میں اپنی پسند کا انتخاب کرتا ہے۔ گاڑی میں کن کن علاقوں کی  گشت کرنی  ہے اور بعض دفعہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ کن کن دوستوں کو اس میں جگہ دینی ہے اور کن کو رہنے دینا ہے۔پرانے مکان کے بدلے محل  تعمیر کیا جاتا ہے۔کپڑوں کی خریداری اور عمدہ  لباس کا انتخاب بھی خواب میں ہی ہوتا ہے۔ کپڑے کس رنگ کے ہونے چاہئیں  اور کون سا رنگ اس پر زیادہ خوش نما لگے گا۔

یہ سب معاملات خواب میں ہی طے پاتے ہیں۔ اس حساب کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ سارے کام کرنے کے بعد کتنی بچت ہو گی اور اس بچی ہوئی رقم کو کن کاموں میں خرچ کرنا ہے۔ اب اگر یہ بندہ قرض میں ڈوبا ہوا ہو اور جن کا یہ قرض دار ہو ، ان سیٹھ ساہوکاروں نے اس کا جینا دوبھر کیا ہوا ہو، تو سب سے پہلے جیتی ہوئی رقم میں سے ان ہی کے قرضے کی ادائیگی ہوتی ہے۔ان کا قرضہ چکانے کے بعد ایک فاتحانہ تبسم کے ساتھ سر اونچا کرکے جس طرح جنگ میں فتح پانے والے سپاہیوں کی خوشی قابل دید ہوتی ہے اس کا بھی ویسا ہی کچھ عالم ہوتا ہے۔آنکھ کھلتے ہی پتا چلتا ہے کہ جو دیکھا تھا خواب تھا اور جو سنا افسانہ تھا۔ اس کیفیت سے گزرنے کے بعد اس کا حوصلہ پست نہیں ہوتا بلکہ وہ نئی امید باندھ کر پھر سے وہی سب کچھ دہراتا ہے اور پھر سے اپنی نئی ٹیم کا انتخاب کرکے اس دوڈ میں پھر سے لگ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتنا تو طے ہے کہ صرف خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جو لگن اور محنت درکار ہے وہ موبائل فون ہاتھ میں لے کر گھر میں تکیے سے ٹیک لگائے چائے کی چکسیاں لے کر اور گپیں ہانک کر نہیں کی جاسکتی۔ہاں کبھی کبھار کسی کی قسمت ہاتھی پر سوار ہوتی ہے اور وہ ڈریم ایلون چن کر ہی اپنے ڈریم کو حقیقت کا جامہ پہناتا ہے۔سب کے نصیب ایسے نہیں ہوتے۔اپنے وقت اور کم قلیل پیسے کو بچا کر اس امیر بننے کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔سیٹھ بننے کی اس دوڑ میں حلال حرام کی تمیز بھی ضروری ہے۔اگر جائز طریقوں سے خوابوں کی تکمیل ہو پائے  تو سونے پہ سہاگہ ورنہ ایسے خواب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں ، جن کو پورا کرنے کے لیے غلط راستوں پر چلنا پڑے اور بدفعلیوں کا سہارا لینا پڑے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply