مردم شماری میں ہماری زبانیں نظرانداز کیوں۔؟

کہتے ہیں کسی بھی علاقے یا ملک کی زبانیں اس معاشرے کے احساس کی تربیت کا نام ہے۔زبان جس طرح کسی بھی معاشرے کی ایک پہچان ہے بلکل اسی طرح زبان ذریعہ اظہار کا نام ہونے کے ساتھ کسی بھی سماج میں ایک دوسرے سے منسلک رہنے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ دیگر معاشرتی لوازمات۔دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال میں بہت سی قومیں اپنی زبان کی ترویج اور بقاء کیلئے کوئی منظم حکمت عملی طے کرنے میں ناکام رہے جس کے سبب بہت سی زبانیں ختم بھی ہوتی جارہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہرسال دنیا بھر میں اکیس فروری کو زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد زبان اور اس سے وابستہ ثقافتی و تہذیبی پہلوؤں کو اجاگر کرناہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت مختلف لہجوں کے فرق سے چہتر کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔اگر ہم گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں اس وقت سات کے قریب زبانیں بولی جاتی ہے جن میں بلتی ،شینا اور بروشسکی زبان بولنے والوں کی تعدادذیادہ پائے جاتے ہیں لیکن اسکا مطلب ہرگز نہیں کہ باقی زبانوں کی کوئی اہمیت اور تاریخی حیثیت نہیں بلکہ میں اتنا ضرورر کہوں گا کہ گلگت بلتستان کے مقامی زبانوں کی تاریخ پاکستان کے کئی اہم زبانوں سے کہیں ذیادہ تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔سب سے پہلے اگر بلتی زبان کی بات کریں یہ زبان ساینو تبتی زبان کی برمن شاخ ہے جو بلتستان اور لداخ کے ساتھ ساتھ نیپال اور بھوٹان میں بھی کچھ تبدیلوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔بلتی زبان کو بچانے کی طرف توجہ نہیں دینے کے سبب اس زبان کو خطرات لاحق ہیں جس کے سبب کھوار اکیڈمی نے چترال اورگلگت بلتستان کی جن معدوم ہونے والی زبانوں کو بچانے کے لیے یونیسکو (UNESCO) سے اپیل کی ہے ان زبانوں میں بلتی بھی شامل ہے۔ اسی طرح ہم اگر بروشسکی کی بات کریں تو یہ وہ زبان ہے جو نگر، ہنزہ اور یاسین کے بروشو قوم بولتی ہے۔یہ زبان بہت قدیم زبان ہے اور اس کی ابتدا کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ بلتی زبان کے بعد شینا گلگت بلتستان اور لداخ کی دوسری بڑی قدیم زبان ہے ۔اس زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس زبان کو وادی سندھ سے آریائی تہذیب کے ایک قبیلہ (درد) اپنے ساتھ لے کر وادی سندھ سے ہجرت کرکے شمالی مشرق کی طرف آیا تھااور زمانے کے ہاتھوں دھکے کھاتے بھٹکتے یہ قبیلہ آخرکار دردستان (گلگت بلتستان کا قدیم نام ہے)میں پھیل گیا۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس زبان کے بولنے والوں کوزمانہ قدیم میں اپنی زبان کوتحریری طور محفوظ رکھنے کا خاص خیال نہیں رہا اور یہ زبان صرف بولی بن کر رہ گئی۔ شینابولنے والے گلگت،ہنزا، نگر، داریل،استور، اسکردو ،اور لداخ میں پائے جاتے ہیں۔موجودہ دور میں شینا زبان بھی اپنی آخری سانسین لے رہی ہے یوں اس زبان کو بچانے کیلئے بھی اس وقت گلگت بلتستان میں کوئی ادارہ قائم نہیں لیکن جموں کشمیر سرکار نے حال ہی میں بلتی اورشینا زبان کو باقاعدہ اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا ہے۔ اسی طرح وخی کی بات کریںیہ زبان گوجال، اشکومن اور یاسین کے سرحدی علاقوں ، چترال کی وادی بروغل کے علاوہ چین کے صوبہ سنکیانگ کے سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے وخی زبان کو بھی مستقبل میں ناپید ہونے والی زبانوں کی فہرست میں شامل کیاہوا ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں اور بھی کئی اہم مقامی زبانین ہیں لیکن یہاں کچھ زبانوں کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان زبانوں کی اپنی تاریخی اہمیت ہونے کے باوجود حکومت پاکستان کی طرف سے نظرانداز کرنا اس خطے کے عوام کی حیثیت اور اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
ایک عجیب صورت حال ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام جب بھی اس خطے کو قومی دھارے میں شامل کا مطالبہ کرتے ہیں تو بہانا یہ بنایا جاتا ہے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے مسلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف پر منفی اثر پڑھ سکتا ہے، خارجہ پالیسی متاثر ہوسکتا ہے وغیر ہ وغیرہ۔لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ جہاں وفاق پاکستان گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے میں اس خطے کی عوام کے ساتھ مسلسل جھوٹ بول کر کچھ افراد کو اس خطے پر مسلط کیا ہوا ہے وہیں اس خطے کی جعرافیائی اہمیت اور خطے کی تاریخ تہذیب تمد ن کو بچانے کیلئے بھی کوئی مخلص پہلو نظر نہیں آتا جو کہ اس خطے کے عوام سے ساتھ ظلم ہے۔مردم شماری میں پاکستان کے کئی علاقائی زبانوں کو شامل کیا گیا لیکن گلگت بلتستان کے اہم زبانوں کو بلکل نظرانداز کرنا چی معنی دارد؟۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وفاق میں بیٹھے کچھ عناصر اس خطے کے عوام میں قومی شناخت نہ ملنے کے سبب پھیلتی اور بڑھتی ہوئی مایوسی کو مزید ہوا دینا چاہتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام جہاں سی پیک جیسے تاریخ ساز منصوبے میں نظرانداز کرنے کے سبب پہلے ہی شش پنج کا شکار ہیں وہیں اس خطے کی زبانوں کی ترویج کیلئے جہاں پاکستان کے فیصلہ ساز ادارے خاموش ہیں وہیں مردم شماری میں بھی اس خطے کی زبانوں کو یکسر طور پر نظرانداز کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے وسائل ،ہماری جعرافیائی اور دفاعی اہمیت کو دیکھ کر ہمیں ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے درحقیقت یہ ایک سیاسی محبت ہے جس کا اصل مقصد ہمارے عوام کے ذہنوں کو گمراہی کے اندھیرے میں رکھ کر مفادات کے حصول سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات پر ہوتا ہے وہ نام نہاد لوگ جو اپنے آپ کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں لیکن انکا کام نمائندگی سے بڑھ کر کرپشن اور اقرباوپروی، کے ساتھ قومی حقوق پر سودا بازی اس طرح کے اہم قومی ایشوز پر خاموش رہ کر مراعات کے حصول سے بڑھ کر کچھ نہیں۔لہذا گلگت بلتستان کے عوام کو مردم شماری میں نظرانداز کرنے والوں کو اس خطے کی آئینی قانونی حیثیت کا اندازہ ہونا چاہئے اور پاکستان بھر میں مقیم لوگ جو یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے سبب ہجرت پر مجبور ہیں اُن کے ساتھ تاریخی ذیادتی ہوگی ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے مردشماری فارم میں گلگت بلتستان کے تمام زبانوں کو شامل کیا جائے اور پاکستان بھر میں مقیم گلگت بلتستان کے باشندوں اس مردم شماری میں خصوصی اہمیت دیا جائے۔ نوٹ: معلومات کی عدم حصول کے سبب کچھ مقامی زبانوں کے بارے لکھنے سے رہ گیا ہے جس کیلئے پیشگی معذرت۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”مردم شماری میں ہماری زبانیں نظرانداز کیوں۔؟

Leave a Reply