جمعیت کی صد سالہ کانفرنس اور عہد الست

اپریل کے پہلے عشرے میں جمعیت علماء اسلام صد سالہ یوم تاسیس منانے جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے پشاور میں تین روزہ صد سالہ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس کانفرنس میں دنیا بھر سے علماء ومشائخ اور سیاسی و مذہبی رہنما شرکت کریں گے۔ صد سالہ کانفرنس کا پس منظر 1919 میں جمعیت علماء ہند کے قیام سے جڑجاتا ہے۔ اور یہی وہ جوڑ ہے جس کی وجہ سے صد سالہ کانفرنس پر اعتراضات اور سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔جیسا کہ 1919 سے 2017 تک سو سال تو پورے ہو نہیں رہے پھر اس کانفرنس کو صد سالہ کیوں کہا جاتا ہے؟ جمعیت علماء ہند الگ جماعت اور جمعیت علماء اسلام الگ جماعت ہے، جمعیت علماء اسلام 1944 میں بنی تھی اور جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں بنی تھی پھر ان دونوں کا ایک ساتھ صد سالہ منانا کیونکر درست ہوا؟ مفتی تقی عثمانی کی ایک تحریر کا حوالہ بھی گردش میں ہے جس میں وہ موجودہ جمعیت علماء اسلام کو علامہ شبیر احمد عثمانی کی جمعیت علماء اسلام سے الگ کوئی اور جماعت بتلاتے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ان کا یا ان کے بڑوں کا کوئی واسطہ وتعلق نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جے یو آئی نہ ہوئی چوں چوں کا مربہ ہوا کہ سر کا پتہ اور نہ ہی پیر کا۔ حالانکہ جے یو آئی کا کارکن نا صرف یہ کہ جے یو ہند بلکہ جے یو آئی (عثمانی) کے سلسلے کے بزرگوں کا بھی شیدائی ہے اور ان سب سے یکساں محبت کا دم بھرتا ہے۔ آئیے اس الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔

بنیادی طور پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جمعیت علماء ہند کا قیام معروف معنوں میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر عمل میں آیا تھا اور نہ ہی جمعیت علماء اسلام کے قیام کامقصد انتخابی سیاست میں شریک ہونا تھا۔ دراصل ان دونوں جماعتوں کی حیثیت برصغیر پاک و ہند میں رہنے والے علماء کرام کے ایک پلیٹ فارم کی سی تھی۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جس کے ذریعے وہ لوگ مسلمانان ہند کی سیاسی رہنمائی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر اور مختلف مسالک کے علماء اس پلیٹ فارم پر اکٹھے نظر آتے ہیں۔بلکہ نامور اہلحدیث علماء جمعیت علماء ہند کے بانی اراکین میں سے تھے۔ 1919 میں اپنے قیام سے لے کر تحریک پاکستان کے آغاز تک جمعیت علماء ہند ہی وہ پلیٹ فارم تھا جس کے ذریعے مسلمانان ہند اپنا سیاسی رخ متعین کرتے تھے۔ سر سید احمد خان، علماء ندوہ، علی برادران، مولانا سید مودودی بلکہ مولانا آزاد جیسی بلند مرتبت شخصیات نے بھی کبھی اس پلیٹ فارم کے مقابلے میں الگ سے کوئی ڈھانچہ نہیں بنایا بلکہ اگر اختلاف ہوا تو اپنی راہیں جدا کر کے اپنے لیے الگ میدان چنا اور اسی میں کام کرتے رہے۔

سر سید احمد خان اور علماء ندوہ نے تعلیم و تحقیق کا میدان چنا، علی برادران نے اگر خلافت تحریک چلائی تو جمعیت علماء ہند کی سرپرستی میں چلائی اور جب جمعیت نے اپنی سرپرستی ختم کی تو علی برادران کی تحریک بھی بیٹھ گئی۔ ابوالکلام آزاد جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے خلافت تحریک میں حصہ لیا تو بھی شیخ الہند کے ساتھ مل کر، نہ کہ ان کے متوازی کوئی جماعت بنا کر۔ اور تو اور قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کو بھی برصغیر کے مسلمانوں نے سند قبولیت اس وقت بخشی جب جمعیت علماء ہند کی سرپرستی میں ان کے اجلاس ہوئے۔ مسلم لیگ کے پنپنے کا سارا زمانہ وہی تھا جو جمعیت علماء ہند کے ساتھ کا تھا، بعد میں جب مسلم لیگ نے الگ خطے کا مطالبہ شروع کیا تو آہستہ آہستہ آپس میں دوریاں پیدا ہوتی گئیںیہاں تک کہ دونوں کے راستے بالکل جدا ہو گئے۔
یہ تفصیل لکھنے کا مقصد جمعیت علماء ہند کے گن گانا نہیں بلکہ یہ بتانا تھا کہ جمعیت علماء ہند ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ ہند کے علماء کے متفقہ پلیٹ فارم کا نام تھا۔ اور تحریک پاکستان سے پہلے تک اس پلیٹ فارم کی حیثیت ایسی تھی کہ جس طرف جمعیت علماء ہند اسی طرف ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ہوتی تھی۔ البتہ تحریک پاکستان کے دوران میں ہند کے مسلمان تقسیم ہوئے اور مسلم لیگ نے فیصلہ کن پوزیشن حاصل کر لی۔ لیکن مسلم لیگ کی یہ پوزیشن بھی ان علما ء کی و جہ سے ممکن ہوئی جنہوں نے جمعیت علماء ہند کے نقطہ نظر یعنی متحدہ ہندوستان کے بجائے مسلمانوں کی الگ ریاست کے نقطہ نظر کو اپنایااور بعد میں جمعیت علماء ہند سے علیحدگی اختیار کر کے جمعیت علماء اسلام کے نام سے الگ جماعت بھی بنائی۔ یہاں واضح کر دوں کہ میرا مقصد مسلم لیگ یا دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو ڈی گریڈ کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہند میں علماء کرام کا سیاسی کردار کیا رہا ہے۔ ان لوگوں نے ہمیشہ سیاسیات میں اپنا حصہ ڈالا، مختلف سیاسی تحریکوں میں شرکت کی بلکہ از خودبہت سی سیاسی تحریکیں برپا کیں، سیاسی بیانیے تشکیل دیے، لیکن اپنے آپ کو سیاسی جماعت کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی رہنمائی تک محدود رہے۔ اور بعینہ یہی طرز عمل جمعیت علماء اسلام کا بھی تھا جو کہ جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں بنی تھی۔

اس تفصیل سے سمجھا جا سکتا ہے کہ موجودہ جے یو آئی نہ ہی جمعیت علماء ہند ہے اور نہ ہی جمعیت علماء اسلام بلکہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے جو باقاعدہ انتخابات اور پارلیمانی نظام کا حصہ ہے، عومی سیاست کرتی ہے اور عوام کے بل بوتے پر اقتدار تک پہنچنے میں یقین رکھتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موجودہ جے یو آئی کا ان دونوں جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ تعلق نہیں ہے تو پھر صد سالہ کیوں؟ تو عرض ہے کہ جس طرح برصغیر پاک و ہند کے علماء نے اتحاد و اتفاق کے ساتھ ایک پلیٹ فارم مسلمانان ہند کی رہنمائی کے لیے بنایا تھا بالکل اسی طرح موجودہ جے یو آئی بھی علماء کا ایک پلیٹ فارم ہے جو مسلمانان پاکستان کی سیاسی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ تو ہوا جمعیت علماء ہند کے ساتھ اس جماعت کا تعلق، رہی بات جمعیت علماء اسلام (عثمانی) کی تو ان کا جمعیت علماء ہند کے ساتھ اختلاف فقط تقسیم ہند پر تھا اور قیام پاکستان کے بعد اس کی بنیاد ہی ختم ہو گئی۔ جس کے بعد عثمانی خاندان اور ان کے متعلقین نے تعلیم، تحقیق اور تدریس کا میدان چن کر گویا اعلان کر دیا کہ جمعیت علماء اسلام (عثمانی) کا سیاسی کردار ختم ہو چکا، لیکن اس سے قبل علامہ شبیر احمد عثمانی پاکستان کے علماء کو جمع کر کے کہتے ہیں کہ ہمیں سیاسی منظرنامے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اوریہیں سے مفتی محمود سٹیپ ان کرتے ہیں اور جمعیت علماء اسلام ہی کے پلیٹ فارم سے گویا یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے علماء کے دونوں گروہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ان کے سیاسی اختلاف سے قطع نظر ہم انہیں اپنا بڑا مانتے ہیں اور پاکستان کے حالات کے مطابق علماء کرام کے لیے ایک نئی طرز کی سیاست کا باب کھولتے ہیں اور وہ ہے علماء کی باقاعدہ سیاسی جماعت کا قیام اور انتخابی سیاست میں شرکت۔ یعنی ہم بھی وہی سیاسی رہنمائی کریں گے جس کی بنیاد 1919 میں رکھی گئی لیکن صرف باہر بیٹھ کر نہیں بلکہ پارلیمان کا حصہ بن کر۔ اس لیے مفتی تقی عثمانی کا یہ کہنا کہ موجودہ جمعیت کا جمعیت علماء اسلام (عثمانی) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اپنی جگہ ایک سچائی ہے ، مفتی محمود کا اس نئی جماعت کا وہی نام استعمال کرنا بھی درست اقدام ہے اور جمعیت علماء ہند کے ساتھ ان کا رشتہ بھی اٹل حقیقت ہے۔

رہی بات 1919 سے 2017 تک سو سال پورے نہ ہونے کی تو نہ ہوں پورے، ضروری تو نہیں کہ سو سال بعد ہی صد سالہ منایا جائے۔صاف بات ہے کہ 98سال بعد صد سالہ منانے کی وجہ 2018 کا الیکشن ہے اور اٹھانوے سال بعد منعقد ہونے والی کانفرنس کو صد سالہ نہ کہا جائے تو کیااٹھانوے سالہ کہا جائے؟ویسے بھی اگر 2017 میں یہ کانفرنس نہ ہوئی تو 2019 میں ہو گی لیکن تب اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ کیونکہ اگلا الیکشن 2023/24 میں ہونا ہے اس بیچ چار سال کا عرصہ گزر چکا ہو گا اور صد سالہ قصہ پارینہ بن کر اپنا اثر کھو چکی ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا ماننا ہے کہ اپریل میں ہونے والی صد سالہ کانفرنس دراصل عہد الست کی طرح کا ایک عہدنامہ ہو گا۔جس طرح خالق کائنات نے حضرت آدم کی ذریت کو جمع کر کے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی لیکن مفسرین لکھتے ہیں کہ عالم ارواح کے اس عہد نامے کا مقصد جسے عہد الست کہا جاتا ہے یہ تھا کہ روز محشر منکرین خدا اللہ کی ربوبیت سے انکار میں یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا۔ اسی طرح صد سالہ کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کی آمد اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے تشکیل پانے والا بیانیہ دراصل مذہب پسندوں کے لیے تجدید عہد ہو گا کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ مذہب پسند حلقے انتخابی سیاست اور پرامن جدوجہد کے اسی فلسفے پر یقین رکھتے ہیں جسے مفتی کفایت اللہ دہلوی کا فلسفہ عدم تشدد کہا جاتا ہے۔
پھر نہ کہنا کہ خبر تک نہ ہوئی

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جمعیت کی صد سالہ کانفرنس اور عہد الست

  1. آپ کی اس تحقیقی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مفتی محمود اور فضل الرحمن دونوں باپ بیٹے نے جمیعت علماء اسلام کو ہائی جیک کر لیا ۔ ۔ اور اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر صحیح غلط کا فرق رکھے بغیر کسی بھی طرح بس اقتدار تک پہنچنا مقصد بنا لیا ،،
    مثلا ۔۔جمیعت علماء اسلام ہند مسلمانوں کی الگ ریاست (پاکستان) بنانے کی سخت مخالف ۔۔۔ اس کے ساتھ خود کو جوڑنا اور وقت سے پہلے صد سالہ تقریب منعقد کرنا ۔۔تاکہ عام مسلمان ہمیں اسلام کا نمائندہ سمجھ کر ووٹ دے ۔۔ مقصد ۔۔ صرف ذاتی
    مفاد ۔۔۔۔ اقتدار
    دوسرا یہ کہ جمیعت علماء اسلام (عثمانی) جو کہ مسلمانوں کی الگ ریاست بنانے میں مسلم لیگ کی حامی کے پلیٹ فارم سے سیاست کرنا ۔۔ تاکہ وطن پرست عام مسلمان بھی ہماری طرف متوجہ ہو ۔۔۔ مقصد ۔۔ صرف ذاتی مفاد ۔۔۔ اقتدار ،،
    وہی آپ والی بات کہ ۔۔ جمیعت علماء اسلام نہ ہوئی چوں چوں کا مربہ ہوئی ناں سر کا پتہ ناں پیر کا ۔۔۔ مقصد صرف اقتدار تک پہنچنا ۔

Leave a Reply