تجدید بداماں ہے ہر اک ذرہ پاکستان کا۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

سوچ رہا تھا کہ اپوزیشن کے مشترکہ احتجاج پہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں گا. لیکن یہ دھندہ تو ڈگری کالج کے ہاسٹل کے کمروں کی مانند شروع ہوتے ہی ختم ہو گیا.
1. پاکستان تحریک انصاف:
جس زرداری کو چور، بدعنوان، ملک کے لیے بیماری اور عذاب قرار دیا گیا اسی کے ساتھ مل کر احتجاج! یہ کیسی گھٹیا سیاست ہے. دوم؛ مشعال، پھر مشعال کے والد، اسما اور پھر ایسے کئی واقعات جن کی فہرست بہت طویل ہے سے نظریں چرانا ممکن نہیں مگر عمران خان جب زینب کے لیے گفتگو کرتا ہے تو اُس کے منہ سے بدبو آتی ہے.
2. پاکستان پیپلز پارٹی:
نااہل ترین ٹولہ. جمہوریت کا راگ الاپنے والے بلوچستان میں کون سی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں. کراچی میں ایم کیو ایم کو کارنر کرنے والے جمہوری نہیں ہو سکتے. کراچی اور اندرون سندھ کے حالات پندرہویں صدی سے ملتے ہیں. روزانہ کئی زینب اندرون سندھ طاقتوروں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں. زرداری سے کوئی پوچھے بھائی یہ شاہزیب کیس تمھاری مرکزی اور صوبائی حکومت کے منہ پہ طمانچہ نہیں کیا؟ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اپنی اسمگلر معشوقہ کو بچانے والے قاتل زرداری کو زینب سے کوئی سروکار بھی ہو گا.
3. شیخ رشید احمد:
جناب موت کے قریب توبہ اور مدت کے خاتمہ پہ استعفے اللہ اور عوام کی عدالت میں مذاق گردانے جاتے ہیں. کبھی یہ مجاہد فی سبیل اللہ تو کبھی یہ جمہوری جمورا ہوتا ہے. ہر آمر کی گود کا لونڈا جب سیاست پہ گفتگو کرتا ہے تو اسٹیج کا بھانڈ نظر آتا ہے. بھانڈ ہونا کوئی شرم کی بات نہیں مگر لیڈر بھی نہیں. شیخ صاحب آپ ایسے مجاہد ہیں جن کے جسم پہ بلیڈ کا نشان بھی نہیں. آپ ایسے جمہوری سیاسی ہیں جن کی رگوں میں خاکی خون بہتا ہے. آپ جب عوام کی باتیں کرتے ہیں تو عوام آپ پہ ہنستی ہے.
4. ڈاکٹر طاہر القادری:
عوام کے حساس جذبات کا استحصال، لاشوں کی تجارت، روپوں کے لین دین پہ جھگڑا اور طبقاتی تضاد آپ کا رختِ سفر ہے. آپ خود فائیو سٹار کنٹینر میں ہوتے ہیں جبکہ آپ کے مریدین بیچارے سرد و گرم کی شدتیں جھیلتے ہیں. آپ کل تک جس زرداری کے خلاف تھے آج اُس کو ساتھ بٹھائے مُسکا رہے ہیں، اس حساب سے آپ کل نوازشریف کے بھی اتحادی ہو سکتے ہیں. آپ کل مشرف کے اتحادی تھے، پھر عمران خان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھاتے رہے، آج زرداری آپ کا معاون ہے. آپ کا کوئی نظریہ بھی ہے یا نہیں؟ حضور آپ کو یاد ہو گا کہ آپ کے قریب بجلی کا ایک انتہائی معمولی دھماکہ ہوا تھا تو آپ بدک گئے تھے. آپ ایک ڈھونگچی ہیں. ماڈل ٹاؤن کے مقتولین یا زینب آپ کے لیے ایک پیراگراف سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے.
لاہور والا دھندہ کیوں ناکام ہوا؟
کیونکہ عوام جان چکے ہیں کہ طاہر، عمران، زرداری اور رشید۔۔ یہ سب کے سب اپنے اپنے مفاد کے بندے ہیں. ان کی سیاست بھی ایک کاروبار ہے. ان کے نعرے بھی کھوکھلے ہیں. ان کے عوامی مسائل محض شغل ہیں. عوام اب ان کے ساتھ نہیں ہیں. اگر تو کوئی نئی قیادت سامنے آئی تو ٹھیک ورنہ عوام سب کچھ اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے تیار کھڑی ہے. عوام مزید اِن گِدھ نما راہنماؤں کے چنگل میں رہنے والی نہیں ہے.
پاکستان کی آبادی کا 55 فیصد حصہ غربت کا شکار ہے. پاکستان میں سرکاری معیار کے مطابق جس شخص کی ماہانہ آمدن 7500 ہے وہ غریب شمار نہیں ہو گا. اُس کے باوجود 55 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے. شریف حکومت نے یہ جھوٹ بولا ہے کہ غربت کی شرح 55 فیصد سے 39 فیصد پہ آ گئی ہے. یہ لوگ نااہل بلکہ انتہائی نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ بدعنوان بھی ہیں.ڈاکٹروں سے لے کر پولیس کے اہلکاروں تک، نرسوں سے لےکر اساتذہ تک ملک کے تمام لوگ بےچینی اور بےسکونی کا شکار ہیں.
ملک میں ایک بھی کماد کا کاشتکار ایسا نہیں جو اِس وقت ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار نہ ہو. روزانہ صبح صبح بھیک مانگنی پڑتی ہے. کماد جب شوگر مل پہ بیچتے ہیں تو ٹیکس دیتے ہیں اور اپنی ہی فصل سے تیار ہوئی چینی خرید کرنے پہ بھی ٹیکس دیتے ہیں. اُس کے باوجود ریاست نے عوام اور کسان کو برباد کر کے رکھ دیا ہے. عوام اب اِن سیاسی بھانڈوں پہ کوئی اعتماد نہیں کر رہے ہیں. مجھے ایسا نظر آ رہا ہے کہ یہ کسان بڑی ملوں پہ چڑھ دوڑیں گے. ملوں پہ قابض ہو جائیں گے. مجھے یہ بھی یقین ہے کہ یہی کسان اِن ملوں کو انتہائی آسانی اور انتہائی اچھے طریقے سے چلا سکتے ہیں.
اپنے بچوں، اپنے بزرگوں اور اپنے جوانوں کی لاشیں اب عوام کو مزید خوف زدہ نہیں رکھ سکتے ہیں. اب عوام ریاست کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں. مجھے خوف ہے کہ ملک میں بغاوت پھیل سکتی ہے. ایران کے پاسداران، ایران کی فورسز، ایران کے میزائل کہاں رہ گئے ہیں، ایران کی ایجنسیوں نے جتنا عرصہ عوام کو جبر کا نشانہ بنانا تھا بنا لیا ہے، اب عوام کی باری ہے. مجھے یہی کچھ پاکستان میں ہوتا نظر آ رہا ہے. میں خبردار کر رہا ہوں.
مجھے لگتا ہے کہ غریب عوام، طلباء، مزدور اور کسان جلد ہی کوئی غیرمعمولی قدم اٹھانے والے ہیں!

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply