آپریشن ردالفساد اور بے جا امیدیں

خبر گرم ہے کہ آپریشن ردالفساد شروع ہونے والا ہے اور اب دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے گا۔ دہشت گردوں کی خیر نہیں۔
میں امید کرتا ہوں ایسا ہی ہو گا ورنہ ماضی کے تجربات میں دیکھا جائے تو ایسا مشکل لگ رہا ہے کیونکہ دہشت گردی کا ریاستی پیمانہ کیا ہے اس متعلق وضاحت درکار ہے۔ آپ کو غلام رسول چھوٹو تو یاد ہو گا۔ اس کے گرفتاری کے ابتدائی دنوں میں ہی خبریں آنا شروع ہو گئیں تھیں کہ پانچ سال تک روجھان کے ممبر صوبائی اسمبلی عاطف مزاری کے گارڈ رہنے والے اور وسیب میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والے غلام رسول چھوٹو کو پولیس افسران کے علاوہ سیاسی شخصیات کی بھی پشت پناہی حاصل تھی اور یہ ان کے کہنے پر بھی غیر قانونی فعل انجام دیا کرتا تھا۔ دوران تفشیش غلام رسول چھوٹو نے انکشاف کیا تھا کہ اس کے رحیم یار خان کے سابق ڈی پی او سہیل ظفر سے گہرے مراسم تھے جس کی وجہ قبائیلی سردار سلیم جان مزاری تھے اور چھوٹو نے ان دونوں حضرات کے لئے مہنگی زمینوں پر قبضے کیے۔ قبضے کے بعد ان زمینوں کو یہ حضرات کوڑیوں کے بھاؤ خرید لیتے جس کے بعد چھوٹو قبضہ چھوڑ کر نئی اراضیوں پہ قبضہ کرتا تھا۔ علاوہ ازیں غلام رسول چھوٹو کے بلوچستان کی علیحدگی پسند عسکری تنظیم بی ایل اے سمیت دیگر کالعدم جماعتوں اور بھارتی عناصر سے تعلق کی خبریں بھی گردش میں رہیں۔ لیکن ناقابل فہم بات یہ ہے کہ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے گزشتہ برس جو رپورٹ مرتب کی اس میں بتایا گیا کہ غلام رسول چھوٹو کے دہشت گردوں کالعدم تنظیموں اور سیاسی جماعت یا شخصیات سے روابط کے کوئی سراغ نہیں ملے۔ رپورٹ میں صرف اتنا بتایا گیا کہ غلام رسول چھوٹو اور اس کے ڈیڑھ درجن ساتھیوں کے خلاف پنجاب سندھ اور بلوچستان میں قتل سمیت ستانوے مختلف مقدمات درج ہیں اور سفارش کی گئی کہ چھوٹو گینگ کی طرح باقی گروپوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔
چھوٹو کی گرفتاری کے کئی مہینوں بعد ایکشن بھی ہوا تو چھوٹے لیول کے چند پولیس افسران کے خلاف۔ باقی کے سارے الزامات اور کرداروں کو گول کر دیا گیا۔ آئی جی پنجاب نے انسپکٹر جام غفار اور سب انسپکٹر مسلم ضیاء کو نوکری سے برخاست کردیا تھا۔ انسپکٹر جام غفار اور سب انسپکٹر مسلم ضیاء پر چھوٹو گینگ سے رابطہ اور معاونت کا الزام ہے۔ یہ حضرات طویل عرصہ تک دریائی تھانوں میں بطور ایس ایچ او تعینات رہے۔ غلام رسول چھوٹو کی گرفتاری کے بعد متعدد پولیس اہلکاروں کیخلاف انکوائری شروع کی گئی جس کے بعد ان دونوں پولیس افسران کو ضلع بدر کردیا تھا۔ ہمارے ملک میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ بات پیادوں کی قربانی سے آگے نہیں بڑھ پاتی کیا آپریشن ردالفساد چھوٹو اور اس کے آقاؤں کے خلاف کچھ کرے گا۔
ماضی کے آپریشنز میں بھی سیاسی لوگوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا ہے۔ پھر وہ صولت مرزا کے اعترافی بیانات کے بعد کی مجرمانہ خاموشی ہو یا عزیر بلوچ کی بیرون ملک گرفتاری کے بعد کا سکوت، ان کارندوں اور پیادوں کے گرفت میں آنے پر وقتی طور پر شور ضرور مچتا ہے اور اس طرح کا سماں بنایا جاتا ہے جیسے کہ اب ان کے گاڈ فادرز پر ہاتھ ڈالا جانے والا ہے۔ مگر یہ وقتی ابال چند دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ایان علی کس کی آلہ کار تھی، ڈالرز سے بھری لانچیں کس کی تھیں، ایم کیو ایم کی حقیقت کیا ہے، فشریز سے روزانہ کروڑوں کا بھتہ کہاں جاتا تھا، صولت مرزا کے سہولت کار کون تھے، تہہ خانے میں کروڑوں روپے کس کے جلے، شریف خاندان نے ملک کو لوٹا، عزیر بلوچ کے سرپرست کون تھے، چھوٹو کس نے پال رکھا تھا، شاه رخ جتوئی کیسے چُھوٹا، کانجو قتل کر کے کیسے بچ گیا، ایان علی بھی بے گناه نکلی، کیس کا تفشیشی افسر مارا گیا کسی کی کان پہ جوں رینگی..؟
ہزاره کمیونٹی کو چن چن کر مارا جاتا رہا، زائرین کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کر کر کے مارا گیا، سرائیکی مزدوروں کا سر عام قتل کیا، اک مذہبی جماعت کا امیر جہاد و قتال کا حکم دیتا رہا، تکفیریوں کا روحانی باپ دہشتگردوں کے مطالبے پیش کرتا رہا، برقع پوش ملاں شہر اقتدار میں بیٹھ کر ریاست کو چیلنج کرتا ہے، لڑکیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے، ماں باپ سے نہیں ملنے دیا جاتا اور جو اس کے خلاف قانونی کاروائ کرنے جاتا ہے جان سے جاتا ہے۔
پنجابی طالبان کا لیڈر کھلے عام گھومتا ہے، لوگوں کے گھروں سے خزانہ برامد ہوتا ہے وہ نیب سے ڈیل کر کے بچ نکلتے ہیں کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ شیعہ مسلک کے ڈاکٹرز انجینئرز سکالرز کو دن دیہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے، توہین کے نام پہ روش خیال آوازوں کو ہمیشہ کیلیے خاموش کر دیا جاتا ہے، کیا گزشتہ آپریشنز میں اس کے متعلق کچھ سوچا گیا تھا؟ ان ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی گئی؟ جواب ہے نہیں۔
حقیقت سے آنکھیں چرا کر “ہم زنده قوم ہیں” گاتے رہنے سے ہم زندہ قوم نہیں بنیں گے، اور تالیاں پیٹتے رہنے سے ہماری ایجنسی دنیا کی نمبر ون ایجنسی نہیں بنے گی۔ زندہ قوم بننے کے لئے معاشرے کے ناسور بنے ان مردہ ضمیر ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرنا ہو گی، آپریشن ردالفساد میں ریاست کے گھر جوائی بنے ان عناصر کے خلاف کاروائی شامل ہے تو اس کی کامیابی یقینی ہے، ورنہ آپریشن راہ راست آپریشن راہ نجات آپریشن ضرب عمل آپریشن ضرب عضب آپریشن ردلافساد کے بعد نئے نام سے اک نئے آپریشن کی تیاری پکڑیں

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply