دہشت گردوں کے خلاف آپریشن رد الفساد کا آغاز

دہشت گردوں کے خلاف آپریشن رد الفساد کا آغاز
طاہر یاسین طاہر
دہشت گردی نے پاکستانی سماج کو مفلوج کر کے رکھا ہوا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ نام نہاد مجاہدین کے حق میں مذہبی رہنماوں اور مدارس کی جانب سے ہمدردانہ بیانات اور فتاویٰ نے دہشت گردوں کو یہ موقع دیا کہ وہ معصوم شہریوں، سیکیورٹی فورسز اور دوسروں مسلمانوں کو کافر قرار دے کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کریں۔ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ خطے کی تزویرزتی صورتحال،اسی کی دھائی میں شروع ہونےو الے نام نہاد افغان جہاد اور کشمیر کی مسلح تحریک کے بعد یک کنفیوژن پیدا ہوتی چلی گئی ارو ہر کلاشنکوف بردار ہیرو بنتا چلا گیا۔ریاست اگر بہت پہلے،یعنی وکئی تین عشرے پہلے ہی مسلح اور نجی جہاد کے نام پر ہونے والے قتل و غارت گری کو کنٹرول کرتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ اس کے باوجود دیر آید درست آید کے مصداق آپریشن سوات سے آپریشن راہ نجات اور پھر ضرب عضب میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف قابل ذکر و قابل فخر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
یہ امر بھی سچ ہے کہ معلوم ٹھکانوں اور معلوم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا بڑا آسان ہے۔ کیونکہ وہ واضح ہدف ہوتے ہیں۔لیکن وہ دہشت گرد یا خود کش حملہ آور جو اپنی کمین گاہوں سے نکل کر شہروں میں چھپے اپنے سہولت کاروں کے پاس آ چھپتے ہیں اور پھر یہاں سے مسلح ہو کر سیکیورٹی اداروں یا معصوم انسانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں وہ کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہیں۔سمالی و جنوبی وزیرستان میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف زبردست آپریشن کیے۔ضرب عضب کے بعد ملا فضل اللہ سمیت،دہشت گردوں کی اول و دوئم درجے کی قیادت افغانستان بھاگ گئی جہاں انھیں افغان حکومت کی جانب سے ریاستی مہمنا کی سی حیثیت حاصل ہے۔ جب کہ اس آپریشن ضرب عضب کے دوران میں کئی انتہائی مطلوب دہشت گرد واصل جہنم بھی ہوئے ہیں۔
اس کے باوجود ابھی دہشت گردی کے خلاف بہت سا کام باقی ہے۔حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بعد جس کے تانے بانے یہ منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی، اور خود کش حملہ آوروں کو مقامی سطح پر سہولت کاری دی گئی،اس کے بعد پاک فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ ضرب عضب کے اگلے مرحلے یعنی آپریشن رد الفساد کو شروع کیا جائے گا۔بلکہ یہ آپریشن شروع بھی ہو چکا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں سیکیورٹی اجلاس میں کیا گیا۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ملک بھر کو اسلحہ سے پاک کرنا، بارودی مواد کو قبضے میں لینا آپریشن کے اہم جز ہیں، جبکہ آپریشن کا مقصد ملک بھر میں دہشت گردی کا بلاامتیاز خاتمہ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
خیال رہے کہ آپریشن ’رد الفساد‘ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس کے دوران پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے لیے رینجرز بڑے پیمانے پر کارروائی کرے گی، جبکہ آپریشن میں فضائیہ، بحریہ، سول آرمڈ فورسز اور سیکیورٹی ادارے شریک ہوں گے۔یاد رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی سمیت 7 ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔ نون لیگ کی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ’ضربِ عضب‘ شروع کیا تھا۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرستان کے دوردراز علاقوں تک بڑھا دیا تھا۔بعد ازاں خیبر ایجنسی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن ’خیبر ون‘ اور خیبر ٹو کے تحت سیکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیاں مزید تیز کردیں۔جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی گئی۔قبل ازیں 2009 میں پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں کمانڈر بیت اللہ محسود کے گروپ کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھااور اسے آپریشن راہ نجات کا نام دیا گیا تھا۔اس آپریشن کا باقاعدہ آغاز پاک فوج کے جنرل ہیڈ کواٹرز پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد ہوا۔آپریشن کے اعلان کے بعد ایجنسی کے دور دراز علاقوں سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع کی اور وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل میں پناہ گزین ہوئے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آپریشن رد الفساد کو آپریشن ضرب عضب سے بھی زیادہ سرعت سے کیا جائے۔یہ امر واقعی ہے کہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کے سہولت کاروں کی بابت میڈیا میں باز گشت سنی جاتی ہے۔اب جب کہ آپریشن رد الفساد کا اعلان کر ہی دیا گیا ہے تو اسے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر جارحانہ انداز میں شروع کر دیا۔ نیز چاروں صوبوں کی سرحدی پٹیاں بھی سخت سیکیورٹی چیک پوسٹوں کی نگرانی میں دے دی جائیں تا کہ دہشت گرد یا ان کے سہولت کار آپریشن کے علاقے سے بھاگ کر ادھر ادھر نہ ہونے پائیں۔ آپریشن ردالفساد کے دوران مدارس کی تلاشی اور ان میں زیر تعلیم طلبا نیز آنے جانے والے مہنانوں کے ریکارڈ کی پڑتال بھی ضرور کی جائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply