کلاسیکل کنڈیشنگ کیا ہے؟-عزیز انجم

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گول گپے کا نام آتے ہی منہ میں پانی کیوں آجاتا ہے؟
یا کوئی پرفیوم آپ کا مزاج خوشگوار کر دیتا ہے کیونکہ وہ آپ کو کسی کی یاد دلاتا ہے؟
یا پھر پورے دن آپ کے کنٹرول میں رہنے والا مثانہ گھر کا دروازہ دیکھتے ہی بغاوت پہ کیوں اتر آتا ہے؟

آپ نے پتا نہیں سوچا ہو یا نہیں مگر شاید آئیون پیوولو Ivan Pavlov نے اس کے بارے میں بہت گہرائی سے سوچا اسی لیئے برتاؤ کی نفسیات behavioral psychology میں ایک انقلاب برپا کردینے والا تجربہ کیا جو اب تک کی بیہورل سائیکولوجی کی سب سے اہم بنیاد بن گیا۔ یہ تجربہ اتنا اہم ہے کہ اگر کوئی خود کو نفسیات کے شعبے سے منسلک کہتا ہے مگر اسے کتے اور گھنٹی کا تعلق نہیں پتا تو اس کی ڈگری پہ شک کرنے میں آپ حق بہ جانب ہونگے۔ اس تجربے سے ملنے والے نتائج کی بنیاد پہ کئی تھیراپیز کی بنیاد رکھی گئی۔

تو آئیے بات کرتے ہیں کہ یہ کتے اور گھنٹی کا کیا تعلق ہے۔

پیوولو اور اس کی ٹیم نے ایک کتے کو ایک مخصوص ٹائم کھانا(راتب) دینا شروع کیا اور دیکھا کہ کتا راتب دیکھتے ہی رال ٹپکانے لگتا تھا۔ اور یہ کوئی خاص بات نہیں ,کتے ایسا ہی کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے راتب دیتے وقت ایک گھنٹی بجانی شروع کردی یعنی پہلے گھنٹی بجتی پھر راتب دیا جاتا کچھ دن بعد ایک انوکھا مشاہدہ کرنے کو ملا وہ یہ کہ کتا اب راتب دیکھنے کا انتظار نہیں کرتا بلکہ گھنٹی سنتے ہی رال ٹپکانے لگتا۔ یعنی وہ ردعمل جو اسے کھانا دیکھ کر دینا چاہیے وہ کھانے سے بالکل غیر متعلق چیز پہ کرنے لگا۔

پیوولو نے اسے اس طرح بیان کیا کہ کچھ قدرتی محرک ہوتے ہیں ,جن سے ہمارا قدرتی ردِعمل جڑا ہوتا ہے جیسے کھانا دیکھ کے بھوک کا احساس ہونا یا جیسے راتب دیکھ کر رال ٹپکانا۔ مگر جب اسی قدرتی محرک کو مشروط محرک سے جوڑ دیا جائے تو قدرتی ردعمل بھی مشروط ردعمل بن جاتا ہے۔ جیسا کہ کتے اور گھنٹی والے تجربے میں ہوا۔ اس پورے پروسیس کو کلاسیکل کنڈیشنگ کا نام دیا گیا۔ اور اس قدرتی ردعمل کو مشروط ردعمل تک بدلنے کے عمل کو کنڈیشنگ کا نام دیا گیا۔

اس تجربے نے نفسیات کی دنیا اور نفسیاتی علاج کا رخ موڑ دیا۔ پاگل خانوں میں استعمال ہونے والے غیر انسانی طریقوں کی جگہ کنڈیشنگ کی جانے لگی۔ اور اب ترقی یافتہ ممالک میں اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے لیئےمکمل طور پہ کنڈیشنگ کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔

کنڈیشنگ کا سب سے زیادہ فائدہ والدین کے تربیت کے طریقوں کو بہتر بنانے میں اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہم غیر ارادی طور پہ روز کہیں نہ کہیں اپنے رویئے کو دوسروں کا رویہ خاص طور پہ اپنی اولاد کا رویہ بدلنے کے کیئے استعمال کرتے ہیں مگر یہ سب لاشعوری کوشش ہوتی ہے اور اس میں مثبت اور منفی رویئے کا امتیاز نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے ملنے والا نتیجہ عموماً ہماری امیدوں کے برعکس ہوتا ہے ہم بچوں پہ سختی کرتے ہیں تاکہ بچے اصول سیکھیں مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو بچہ بہت ڈر جاتا ہے یا پھر بالکل ضدی ہوجاتا ہے۔ یہاں پہ بہت سوچ سمجھ کر کنڈیشنگ کا استعمال کیا جائے تو بالکل کسی کیمیکل ری ایکشن کی طرح آپ کو پتا ہوگا کہ آپ نے یہ رویہ بچے کے سامنے پیش کیا تو بچہ اس کا کیا ردعمل دکھائے گا۔

مثلاً بچوں کو والدین کی توجہ چاہیئے ہوتی ہے اور ان کے لیئے یہ توجہ بہت اہم ہوتی ہے۔ بچے عموما ًوالدین خاص کر ماں کے ساتھ ساتھ گھومتے ہیں مگر کام کی زیادتی کے باعث عموما ًمائیں انہیں بروقت توجہ نہیں دے پاتیں۔ توجہ ملتی ہے جب بچہ کوئی غلطی کر دے یا اپنی بات منوانے کے لیئے چیخے ، چاہے  وہ توجہ ڈانٹ یا مار کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ مگر بچے کا معصوم ذہن سمجھتا ہے کہ مقصد پورا ہوگیا۔ یعنی آپ نے بچے کو ایک مشروط محرک دے دیا۔ یہ توجہ جو قدرتی طور پہ بچے کا حق ہے کیونکہ آپ نے اسے پیدا کیاہےاور اس کی تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ مگر یہ توجہ بچے کے چیخنے یا غلطی کرنے کے بعد ملنے لگتی ہے تو اسے یہی طریقہ توجہ حاصل کرنے کا آسان طریقہ لگتا ہے۔

اب مسئلہ یہاں آتا ہے کہ کیا والدین اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر بچوں کی باتیں سننے بیٹھ جائیں؟ کسی حد تک اس کا جواب ہاں ہوسکتا ہے مگر کیسے جبکہ پریکٹیکلی یہ ناممکن ہے تو جناب والدین کو اپنی مصروفیات چھوڑنی نہیں ہوتیں بلکہ بچوں کو احساس نہیں دلانا ہوتا کہ وہ مصروف ہیں۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام دیں جو ان کے کھیل کا حصہ ہوں اور اس سے بچے زندگی گزارنے کے کچھ سادہ اصول سیکھ سکیں۔ کام صحیح یا تقریباً  صحیح کرنے کے بعد بچے کو انعام دیں وہ زبانی شاباش بھی ہوسکتی ہے پیار بھی اور ساتھ باہر گھمانا بھی۔ ہمیشہ بچے کو ردعمل اس بنیاد پہ دیں کہ اس نے کام کیا کر کے دکھایا اس کی طرف توجہ رکھیں وہ کیا نہیں کرپایا اس کا ردعمل بچے کو نہ دیں بلکہ اگلی دفعہ کی کنڈیشنگ کے لیئے ذہن میں رکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ یاد رکھیں کہ کنڈیشنگ مستقل مزاجی اور وقت چاہتی ہے۔ مگر دیرپا نتائج دیتی ہے۔ آپ ایک دن کسی کام پہ بچے کو شاباشی دے کر دوسرے دن متوقع رویہ نہیں پا سکتے کیونکہ ذہن میں رکھیں آپ “قدرتی ردعمل” کو بدل رہے ہیں اور اس میں وقت لگتا ہے۔
منقول۔

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply