عہدِ گزشتہ۔۔۔اسماء مغل

موسموں کا تغیر و تبدل انسانی زندگی پراثرات مرتب کرنے کا سبب بنتا ہے مگر صرف اسوقت جب دل کا موسم بھی باہر کے موسم کے موافق ہو،مارچ کے اوائل میں چلنے والی ہوائیں ماحول کو خوشگوار کرنے کی بجائےسوچوں کو منجمند کرنے کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔یاد کی کھڑکی پر ہونے والی ایک ہلکی سی دستک بھی ہمیں صدیوں پیچھے کسی کھلے آنگن یا تنگ و تاریک گلیوں کا سفر کرا دیتی ہے کہ جہاں اندھیرے کے باوجود بیتے لمحوں کی روشنی آنکھوں میں بینائی بھر کر وہ منظر دکھاتی ہے جنہیں فراموش کئے انسان زندگی کی تگ و دو میں بہت کچھ پیچھے ہی چھوڑ جاتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا ایک معمولی سا لمحہ بھی زندگی بھر کا اثاثہ بن کر رہ جاتا ہے۔یہی لمحہ جب کبھی تنہائی میں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے تو خاموشی میں گونجنے والی صدائیں ویرانے میں بھی ایسا حشر برپا کرتی ہیں کہ ز مین و آسمان کی پناہ۔۔۔سانسوں کے سفر میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب عشق و عاشقی محض ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے،زندگی کی تلخ حقیقتیں انسان کو بے بس کرکے اس طرح اپنا محصور کر لیتی ہیں کہ سچے جذبے بھی اپنا آپ منوانے میں ناکام رہتے اور صابن کی جھاگ کی طرح اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں،ایسے میں یادوں کا سفر آپکو کبھی کبھی روشنی سے بھی متعارف کرا دیتا ہے یا اندھیرا ہی مقدر ٹھہرتا ہے۔دل میں کروٹ لینے والی یہ خواہش انسان کے وجود کو توڑ پھوڑ دیتی ہے کہ کاش ساحل کی گیلی ریت پر اس کے قدموں کے نشانوں پر اپنے قدم رکھتا کوئی اس کی پیروی میں دوسری دنیا کا ساتھی ہو،وہ دنیا جہاں لہریں ڈوبتے سورج سے گلے مل کر واپس آکر انکے قدموں کو بوسہ دیکر ایک نئی امید کا سندیسہ دے جائیں،۔۔۔زندگی میں ان جذبات کو کبھی فراموش مت کیجئے جو ان چاہے فیصلو ں کا رزق بنے۔
سنا ہے کسی کے آنے جانے سے زندگی نہیں رکتی لیکن اس سے بھی بڑا بے رحم سچ یہ ہے کہ ہزاروں لوگ مل کر بھی اس ایک جانے والے کی کمی کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔دل کا ایک کونہ یادوں سے سدا آباد ہی رہتا ہے،اس آنگن میں گھنے پیڑ تلے ایک ہجوم ہر لمحہ اپنی جانب متوجہ کیے رکھتا ہے،ویرانے آباد رہتے ہیں،پلکوں پر ٹھہری نمی ہر شے کو دھندلا دیتی ہے سوائے اس ایک لمحے کے کہ جس نے دل کو پری خانہ بنا دیا۔۔
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم،نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ ء جاں،میرے تو دل میں اتر گیا وہ۔۔۔۔
دل میں پرورش پانے والا درد کبھی کبھی زندگی میں در آنے والے کٹھن مر حلوں سے نمٹنا آسانا بنا دیتا ہے،ایسے ہی یاد کی انگلی تھامے صحراؤ ں،نخلستانوں کا سفر کرنیوالا تنہا نہیں رہتا،جو گزر گیا اور نہیں ملا اسے بھولنے کی بجائے اپنے لیئے مشعل راہ بنا لیں کہ بعض اوقات انجانی منزلوں کی جانب تنہا سفر راہ سے بھٹکنے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔۔
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ میں آگیا تو چراغ راہ کے بھی جل اٹھے۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply