دھماکہ اور دھمال!

دھماکہ اور دھمال!
تحریر: محمد عیسیٰ سلطان
دنیا کی زندہ قوموں میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو وہ قوم اس حادثہ کی وجہ جانتی ہیں اور اک ہو کر اس وجہ کے خلاف لڑتے ہیں۔ہماری قوم کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی کل کی بات ہے سہون شریف میں دھماکہ ہوا اور ہم افسوس کرنے کی بجائے اس بحث میں لڑ رہے ہیں کہ دھمال کرنا ٹھیک ہے یہ نہیں۔ہم بحثیت قوم اتنی نچلے درجے پر چلے گئے ہیں کہ ہم کو اپنی بحث کے مزے میں ان 100 لوگوں کے خون کو بھول رہے ہیں۔
اوپر سے اس بحث کو نیا رنگ دیا سماجی میڈیا پر اک تصویر نے جس میں پتہ نہیں کوئی عورت دھمال ڈال رہی ہے اور خود کو روشن خیال ظاہر کر رہی ہے۔میرا ان روشن خیال لبرل سے سوال ہے جب کسی مسجد میں دھماکہ ہوتا ہے یہ مسجد میں جا کر نماز کیوں نہیں پڑھتے؟اس لئے ان لبرل ذہن والوں کو نہ اسلام سے اور نہ ہی صوفی ازم سے کچھ لینا دیناہے، ان کا کام امت اور عوام کو گمراہ کرنا ہے جس میں وہ بظاہر کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
جس طرح شریعت دھمال کی اجازت نہیں دیتی بالکل اسی طرح دھماکوں کی اجازت نہیں دیتی۔اگر مزاروں پہ غیر مذہبی اور شرعی کام ہوتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام ان مزاروں پہ اپنی روحانی تسکین حاصل کرنے نہ جائیں۔اگر کسی پاکیزہ جگہ پہ غیر مذہبی اور شرعی کام ہوتا ہو اس کہ یہ مطلب نہیں کہ اس جگہ کو دھماکہ سے صاف کیا جائے بلکہ اس جگہ کی اصلاح کی جائے۔ یہ صوفی اور ان کے مزار اسلام کی درسگاہ تھی اور آج بھی ہیں لیکن کچھ جاہل لوگوں کی وجہ سے آج بدنام ہو رہی ہیں۔
اس بحث میں سب سے زیادہ جس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اہلسنت بریلوی لوگوں کو بنایا جا رہا ہے۔ستم دیکھۓ وہ ہی ان دھماکوں میں اپنا خون دے رہے ہیں اور وہ ہی بدنام ہو رہے ہیں۔دھمال ،مزاروں کو سجدہ کرنا،نشہ،اور قوالی یہ سب بھی اہلسنت بریلوی لوگوں کے قریب حرام ہے۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ کے فتوی میں ان سب کو حرام کہا ہے ۔ان مزاروں پہ جانا ٹھیک ہے جسے امت مسلمہ شروع سے جاتی آ رہی ہے لیکن حرام کاموں سے بچنا چاہیے۔

Facebook Comments

محمد عیسیٰ
پیشے کے لحاظ سے ٹیلی کام اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply