پھکی فروش پاکستان کانایاب ٹیلنٹ

کون کہتاہے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی ہے۔ کبھی ملتان سے لاہور جی ٹی روڈ پر کسی نان اے سی بس میں سفر کر کے دیکھیے ۔۔آپ کو ٹیلنٹ کے ایسے ایسے شاہکار دیکھنے کو ملیں گے کہ عقل دنگ رہ جائے گی۔ چکوال کی ریوڑی سے لے کر دواخانوں کی پھکی بیچنے والے تک ہر ہاکر اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ وقفے وقفے سے ایک کے بعد ایک ہاکر بس میں چڑھتا ہے ۔اپنی گفتار اور شیریں بیانی سے مسافروں کو مسحورومحفوظ کرتا ہے۔ چند ڈبیاں یا پیکٹ بیچتا ہے اور اتر جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک کہ آپ کا سفر جاری ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی قسم کی چیز دو مختلف ہاکرز ایک ہی مسافر کو یہ باور کرا کے بیچ لیتے ہیں کہ ان کا مال دوسرے سے کہیں اچھا ہے۔ مزید یہ کہ اپنی باتوں میں اتنا الجھا کے رکھتے ہیں کہ اختلاف کرنے والوں کے لیے بولنے کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔
سب سے پہلے تو بس میں بیٹھتے ہی آپ پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ پاکستان کی عوام کا سب سے بڑا اور اصل مسئلہ بدامنی یا بے روزگاری نہیں بلکہ “قبض”ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو عوام ہی نہیں ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بھی قبض ہی ہے۔ ملک کے وسائل کی لوٹ مار کرنے کے بعد نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ نا نگلتے بنتی ہے نا ہی اگلتے بنتی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کرتے کرتے یہی قبض قبضہ کی شکل اختیار کر جاتی ہے پھر چاہے پانامہ ہو یا سرےمحل کا ہنگامہ قبض زدہ مریض کی طرح ملکی سے لے کر بین الاقوامی عدالتوں کے جتنے مرضی چکر لگوا لیں ان سے کچھ اگلوایا نہیں جا سکتا۔ قبض کی اس قسم کو “قومی قبض”قرار دیا جائے تو غلط نا ہو گا۔
خیر یہاں بات ہو رہی تھی عوامی قبض کی۔ اس قسم میں تھری پیس سوٹ میں ملبوس کوئی حکیم صاحب ڈرائیور سیٹ کے پاس کھڑے ہوئے “قبض”کی ہولناکیوں اور تباہیوں کا تذکرہ اس شدومد سے کرتے نظر آئیں گے کہ اگر خدانخواستہ آپ اس مرض میں مبتلا ہیں تو وہیں منزل پر پہنچنے کی بجائےاپنے آپ کو راہیِ ملکِ عدم سمجھنا شروع ہو جائیں گے۔ آپ کو لگے گا کہ اگر حکیم صاحب کی پھکی کو فوراً استعمال نا کیا گیا تو شاید بس سے زندہ سلامت اترنا آپ کے نصیب میں نا ہو۔ اگر فرض محال اتر بھی گئے تو بیسیوں دیگر خطرناک اور موذی امراض جن کا نام لیتے وقت بھی بزرگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ اور اگر خوش قسمتی سے آپ قبض کا شکار نہیں ہیں (جس کے چانسز نا ہونے کے برابر ہیں 😉 ۔ ۔ ۔ تو پھر بھی آپ حکیم صاحب سے پھکی لے کر ہمیشہ کے لیے اس موذی مرض کی پیش بندی کرنے کو ترجیح دیں گے۔
آپ کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ پاکستان کی دھرتی نے کیسے کیسے عظیم سائنسدان اور ڈاکٹرز پیدا کر دیے ہیں جن کی ہمیں قدر ہی نہیں اور وہ بسوں میں رُل رہے ہیں۔ مغربی سائنسدان ہر شے کی تھیوری (تھیوری آف ایوری تھنگ) کے لیے کئی سالوں سے تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ تو شاید کبھی یہ تھیوری پیش نا کر سکیں البتہ پاکستان کے ان ہونہار سپوتوں نے سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک ہر بیماری کا ایک ہی علاج ضرور دریافت کر لیا ہے اور وہ ہے”پھکی”سردرد سے لے کر کینسر تک ہر مرض کا ایک ہی علاج۔ ۔ ۔ آزمودہ ایسا کہ آپ وہیں بیٹھ کر کھائیے اور بیماری کو رفوچکر ہوتا دیکھیے۔
یہی نہیں بلکہ امراض مخصوصہ کے لیے بھی یہ پھکی یکساں مفید ہوتی ہے۔ حیرانگی تو تب ہوتی ہے جب مذکورہ موبائل حکیم صاحب بھری بس میں اُن جملہ مردانہ و زنانہ امراض پر بھی تفصیل سے روشنی ڈال رہے ہوتے ہیں جن کے متعلق دیواروں پر لگے ہوئے اشتہارات کو بھی یار لوگ چھپ چھپ کر پڑھتے ہیں کہ کہیں قریب کھڑا کوئی دیکھ نا لے۔ جبکہ حکیم صاحب کا ٹیلنٹ دیکھیے کہ وہ نا صرف کھلے عام ان امراض کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں بلکہ مردوخواتین اردگرد کی پرواہ کیے بغیر دھڑا دھڑ ان سے پھکی بھی خرید رہے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خریداری پر منی بیک گارنٹی بھی دی جاتی ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ حکیم صاحب کے بس سے اترنے کے بعد پسند نا آنے کی صورت میں وہ کون سے ذرائع ہوتے ہوں گے جن سے منی بیک کرائی جا سکے۔
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے۔اگر آپ خدانخواستہ ناک کان وغیرہ کی مرض میں مبتلا ہیں جہاں پھکی نہیں ڈال سکتے تو اس کے لیے ان ہاکر سائنسدانوں کی ایجاد۔ ۔ ۔ ڈراپر
آپ کی آنکھ ناک کان کے تمام جملہ امراض کا ایک ہی علاج۔ ۔ ۔ بس دو قطرے ڈراپر۔ ۔ ۔ اور ٹرائی موقع پر
خدا جھوٹ نا بلوائے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے تین تین نمبر کے عدسوں والی عینک لگائے بابوں کو بس میں ہی ڈراپر استعمال کرنے کے بعد عینکیں اتار کر جیب میں ڈالتے دیکھا ہے۔ وہ الگ بات کہ ہاکری ڈاکٹر صاحب کے اترتے ہی پھر سے دھندلا دکھائی دینے کی وجہ سے دوبارہ عینک لگاتے بھی دیکھا۔
اور تو اور یہ ہاکرز سواریوں کے خیالات پڑھنے میں بھی یدِطولی رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک ہاکر اپنی تفصیلی تقریر کرنے کے بعد اور مسافروں کی جیبیں خالی کرنے کے بعد اترا ہی تھا کہ ایک اور آ گیا۔ میں سوچنے لگا کہ عجیب بات ہے ایک جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آواز آئی۔ ۔ ۔ “یہ نا سوچیے گا کہ ایک آتا ہے ایک جاتا ہے۔ جو آتا ہے اپنا نصیب لے کر آتا ہے”
میں یہ سن کر ہکا بکا اس کا منہ تکتا رہ گیا کہ اس نے میرے دل کی بات کیسے جان لی۔ہر ہاکر کا بس میں انٹری سٹائل جدا اور ڈائیلاگ ایسے کہ شاہ رخ بھی مات کھا جائے۔
مجھے اکثر ان پھکی فروش حکیموں اور پاکستانی سیاستدانوں میں بہت مماثلت لگتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے سیاستدان بھی پاکستانی عوام کے ساتھ کچھ اسی قسم کے نایاب ٹیلنٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے اپوزیشن والے حکومتی” اور حکومت والے اپوزیشن کی “قومی قبض کاخوب کچا چٹھا کھولتے ہیں اور پھر عوام کو اس کے حل کے طور پر اپنی منشوری پھکی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے رائے دہندگان بھی بس مسافروں کی طرح اتنے سادہ لوح ہیں کہ بڑی آسانی سے دام فریب میں آجاتے ہیں۔ اور پھر الیکشن کے بعد انہی مسافروں کی طرح جیبیں جھاڑتے بھی نظر آتے ہیں۔
خیر میں پاکستان میں پائے جانے والے اس نایاب ٹیلنٹ پر اگر تفصیلاً لکھوں تو شاید ایک کتاب بھی کم ہو گی۔ جن لوگوں نے بس کا سفر کر رکھا ہے وہ تو میری بات سے مکمل اتفاق کریں گے لیکن جنہوں نے نہیں کیا وہ ذرا ایک بار سفر کر کے دیکھیں۔ مزا نا آئے تو پھکی۔ ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے الفاظ واپس۔ ۔ ۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”پھکی فروش پاکستان کانایاب ٹیلنٹ

  1. ندیم بھائ قبض کی شکایات وصول ہونا شروع ہو گئ ہیں
    ابھی تو لوز موشن لگنے والے ہیں فیصلہ بھی انے والا

Leave a Reply