اور اب سیف اللہ نیازی۔۔۔۔۔ آصف محمود

برادر مکرم سیف اللہ نیازی نے تحریک انصاف کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل کے منصب سے استعفی دے دیا ہے۔راہ و رسم میں پرانی وارفتگیاں ہوتیں تو عمران خان کو روک کر کہتا : مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔

کیسے کیسے لوگ تھے جو کبھی اس شخص کے رفیق تھے ۔نوید خان ، اکبر ایس بابر، ایڈمرل جاوید اقبال، ایڈ مرل جاوید اقبال،حفیظ اللہ خان نیازی۔۔۔ٹوٹے دل کے ساتھ ایک ایک الگ ہو لیا۔کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے۔

نوید خان اس کے مخلص ترین رفقاء میں سے ایک تھے۔عمران کہا کرتے تھے آپ سب لوگ مجھے چھوڑ دو تب بھی میں اور نوید تبدیلی کی یہ جنگ لڑتے رہیں گے۔ نوید کی والدہ ہسپتال میں تھی عمران نے کہا جلسے میں ساتھ چلو۔نوید نے کہا والدہ بیمار ہیں۔عمران نے کہا اچھا میں بھی نہیں جاتا۔مانسہرہ میں جلسہ تھا۔نوید کا یہ علاقہ تھا۔مجبورا ساتھ چلے گئے۔واپش لوٹے تو ماں نہیں تھیں۔انتخابات میں بدترین شکست کی اگلی صبح نوید خان بنی گالہ پہنچے، عمران نماز پڑھ رہے تھے،فارغ ہوئے تو کہا:نوید ہم ہاکی کے کھلاڑیوں سے کرکٹ کھیل رہے ہیں ۔’’عمران نے انگوٹھے اور اور انگلی سے یوں اشارہ کیا جیسے نوٹ گنتے ہیں‘‘ نوید خان بتاتے ہیں’’نوید کرکٹ کے کھلاڑی ڈھونڈو،الیکشن جیتنا ہے تو پیسے والے لوگ پکڑو‘‘۔نوید مسکرائے اور کہا: خان صاحب مجھے پھر آپ ہاکی کا کھلاڑی ہی سمجھیں۔ نوید یہ ضروری ہے۔۔۔۔۔۔عمران نے سمجھایا۔ خان صاحب تباہی کا راستہ ہو گا۔۔۔نوید نے اصرار کیا۔ایک روز بنی گالہ کے وسیع لان میں میٹنگ تمام ہوئی تو نوید نے کہا عمران ایک بات تو بتائیں: یہ جن کرپٹ لوگوں کو ہم نے کھمبوں سے لٹکانا تھا آپ نے ساری جماعت کو ان کرپٹ لوگوں کے اعضائے مخصوصہ سے لٹکا دیا ہے تبدیلی کیسے آئے گے۔عمران نے رات نوید کو ایک پیغام بھیجا : مجھ پر تنقید ضرور کیا کرے لیکن سب کے سامنے نہیں۔نوید نے جواب دیا دوسروں کے تم قائد ہو گے میرے لیے تو سب کچھ ہو۔تمہاری باتوں اور تمہارے خواب پر میں نے ماں قربان کی ہے۔ بولوں گا اور سب کے سامنے بولوں گا۔

ایک دوپہر نوید خان کو لندن سے عمران کی کال آئی ۔اس روز ایک آفس کے ملازم نے غصے میں دفتر میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ عمران کا فون سن کر نوید دفتر آئے۔شدید غصے میں تھے۔آفس بوائے کو بلایا گیا تو وہ رو پڑا ۔اس نے بتایا خان کے کتے کو کھلانے کے لیے تو خان نے پیسے دیے تھے لیکن میری تنخواہ ابھی نہیں ملی، صاحب خود ملک سے باہر ہے، میں کیا کروں۔نوید نے صرف اس لڑکے کو معاف نہیں کیا اسے تنخواہ بھی دی ۔لیکن ایک کام اور بھی کیا۔دفتر کے نمبر سے سب کے سامنے عمران خان کو فون ملایا اور کہا:قصور اس آفس بوائے کا نہیں غلطی تمہاری ہے ۔فلاں اور فلاں یہ نہیں تم ہو۔img_0045.jpg?ver=1.0

میں عمران کے بارے حسن ظن کا اظہار کروں تو نوید کہتے ہیں : تم بہت سادہ ہو عمران نہیں۔عمران کو معلوم ہے کب اورکب تک کسے کیسے استعمال کرنا ہے۔

اکبر ایس بابر بھی عمران کے ایک مخلص دوست کا نام ہے۔خوفناک ثبوت عمران کے خلاف لے کر اب وہ میدان میں کھڑا ہے۔ عمران کی ساری جماعت اس کے مقابلے میں گونگی ہو چکی ہے۔سٹوڈیو میں ساتھ بٹھا کر میں نے ساری پارٹی سے رابطہ کر لیا۔جواب ملا: ہمیں ہدایت ہے اکبر ایس بابر کی باتوں کا جواب نہیں دینا۔اکبر ایس بابر کے خلاف ٹائیگرز بہت کچھ کہتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں یہ ایک اجلا آدمی ہے جس کے خواب ٹوٹے ہیں اور اب وہ پلکوں سے کرچیاں چن رہا ہے۔ اکبر کی والدہ بیمار ہیں۔شام کے ٹاک شوز میں وہ بالعموم نہیں آتا۔اس نے ماں کو دوائی خود دینا ہوتی ہے اور دوستوں کو بھی اس وقت ملتا ہے جب ماں سو جائے اور وہ بھی صرف گھر پر کہ ماں کسی وقت بھی جاگ سکتی ہیں۔اکبر ایس بابر کو موجود ہونا ضروری ہے۔ماں کی خدمت ملازموں سے نہیں کروائی جاتی۔ اس کا کہنا ہے خود کی جاتی ہے۔

ایڈمرل جاوید اقبال ۔۔۔کیسا دبنگ آدمی تھا۔مشرف کا مارشل لاء لگا تو وہ ایک ملک میں سفیر تھے۔مشرف کا خط ملا تو ایسا جواب لکھ بھیجا تو میں یہاں نقل کرنے کے بھی ہمت نہیں پاتا۔ایڈمرل کی ہمت کو سلام کہ آمر وقت کو ہلا کر رکھ دیااور پھر زیر عتاب رہا۔

وجیہ الدین ۔۔۔۔۔تعریف کے محتاج ہی نہیں۔

اور اب سیف اللہ نیازی کو سب کچھ اجنبی لگنے لگ گیا۔سیف اللہ نیازی ہمارے استاذ مکرم عمران احسن خان نیازی صاحب کے فرزند ہیں۔ برادرم سلیم سافی لکھتے ہیں کہ پارٹی میں جہانگیر ترین کا راج ہے کہ دولت بہت ہے ان کے پاس اور نعیم الحق کی چلتی ہے کہ وہ عمران کی ایسی ایسی خدمت بجا لاتے ہیں کہ کوئی اور سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔عمران احسن نیازی جیسے نجیب باپ کا بیٹا نہ جہاز رکھتا ہے نہ عمران کی ویسی خدمت کر سکتا ہے جیسی نعیم الحق کرتا ہے۔انجام تو یہی ہونا تھا۔

عمران خان اگر آخری فیصلہ کر چکے ہیں کہ مخلص دوستوں سے محروم ہونا ہے اور خدام خاص اور چاپلوس قسم کے صاحبان تجوری کے ہاتھوں یرغمال رہنا ہے تو انہیں سیف اللہ نیازی کا استعفی قبول کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

جون ایلیا نے ٹھیک ہی کہا تھا:

’’میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس

خو د کو تباہ کر لیا ، اور ملال بھی نہیں‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

آصف محمود معروف اینکر، تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آصف کے کالم عمران اور تحریک انصاف کی سیاسی تاریخ ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply