برگر والا۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سوچ رہا ہوں کہ شام کے وقت برگر کا ایک سٹال لگا لوں، کچھ اضافی آمدنی بھی ہوجائے گی۔ چوبیس سالہ ناصرنے اپنی ماں کے سامنے تجویز پیش کی۔
ایک گھر؛ ماں ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔۔۔
بیٹا! جگہ کا جائزہ لے لے اچھی طرح۔ ماں نے تجربے کی بات کی۔
ناصر نے اتوار کا دن جائزہ لینے میں گزارا۔ مرکز میں تو بہت زیادہ برگروالے موجود تھے، کرایہ بھی زیادہ تھا اور جگہ بھی موجود نہ تھی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ گھر کے قریب ہی میرا بادی میں موجود اتفاق ٹاؤن کی مارکیٹ میں سٹال لگائے گا۔ ایک سموسے والے سے بات کرلی اور دو ہزار ماہانہ کرائے پر بات طے پاگئی۔
بھاگم بھاگ سامان خریدا۔ ماں اور بہن کے ساتھ مل کر کباب بنانے کا کام شروع کیا، پہلے دن بارہ کباب بنائے، قیمت مرکز سے دس روپے کم رکھی۔ بہن نے مشورہ دیا کہ کباب میں مایونیز بھی ڈالی جائیں تو ذائقہ زیادہ بہتر آئے گا۔
ماں اور بہن کی دعاؤں کے ساتھ چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، ماں نے ایک وعدہ لیا کہ جماعت قضا نہیں کرنی۔
پہلے دن چھہ برگر بکے۔
اسی طرح سلسلہ چل رہا تھا۔ جماعت سے دس منٹ پہلے ناصرتوا لپیٹ دیتا، انڈے، کباب اور برگر سموسے والے کے پاس اندر رکھ دیتا اور جماعت کے لیے چلا جاتا۔
اردگرد کے دکاندار حیرانی سے دیکھتے کہ ایسے کاروبار کیسے چلے گا؟ گاہک کو روانہ کردیا جائے یا انتظار کروایا جائے تو کون یہاں پھٹکے گا۔
دن گزرتے جا رہے تھے، اوسط فروخت دس برگر تک پہنچ چکی تھی، کرایہ اور خرچہ پورا ہورہا تھا لیکن منافع کم تھا، ویسے بھی وہ شام چار سے نو بجے تک سٹال لگاتا تھا اور اس دوران تین نمازیں بھی آتی تھیں۔
ایک دن مغرب کے وقت وہ توا لپیٹ رہا تھا کہ اچانک ایک بارہ سالہ بچہ آیا اور اکٹھے چھہ برگرکا آرڈر دیا۔ یہ اس کی دکانداری میں پہلی دفعہ تھا کہ اکٹھے چھہ برگر کا آرڈر آیا۔
ایک لمحے کو کمزور ہوا لیکن فوراً ہی دل مضبوط کرکے کہا کہ جماعت کا وقت ہے، اُس کے بعد بنا دیتا ہوں۔ لیکن وہ بچہ اپنے گھروالوں کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
تھوڑا سا دل میلا ہوا لیکن وہ سر جھٹکتے ہوئے جماعت کے لیے روانہ ہوگیا۔
واپسی پر موہوم سی امید تھی کہ شاید وہ آرڈر موجود ہو لیکن ایسا نہ تھا، سموسے والا بھی اسے سمجھا رہا تھا کہ اس طرح کیسے دکانداری چلے گی۔
وہ خاموش اس کی باتیں سنتا رہا۔
اتنے میں گاہک آنا شروع ہوئے، شام سات بچے تک آٹھ برگر فروخت ہوچکے تھے اور ساتھ ہی برگر بن ختم۔
اس نے فون کیا تو برگربن والے نے آدھے گھنٹے کے لگ بھگ پہنچنے کا کہا۔
وہ اندر دکان میں جا کر کھڑا ہوگیا، اتنے میں باہر گاڑی رکی اور وہی بارہ سالہ بچہ نمودار ہوا۔
اس کو دیکھ کر ہلکی سی خوشی ہوئی لیکن وہ خوشی برگربن ختم ہونے کی وجہ سے تحلیل ہوگئی۔
اس دفعہ بچے نے چھہ کے بجائے آٹھ کا آرڈر دیا تھا۔
اس نے آدھے گھنٹے کا بتایا، بچہ واپس جانے ہی لگا تھا کہ اچانک برگربن والا سوزوکی کیری ڈبہ دکان کے سامنے رک گیا۔
کہاں آدھا گھنٹہ اور کہاں فوری پہنچنا۔
ناصر کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ تیر گئی اور اس نے ایک عجیب توانائی محسوس کرتے ہوئے بچے کو آواز دی کہ گاڑی آگئی ہے۔
اس کے توے پر پہلے دفعہ آٹھ برگر بن رہے تھے اور اسکی فروخت بیس برگر تک پہنچ چکی تھی جب کہ عشاء کے بعد کا ایک گھنٹہ بھی باقی تھا۔
اردگرد کے دکانداراسے آتے جاتے کہہ رہے تھے: واہ جی واہ، آج تو رونق لگی ہوئی ہے، آج تو قسمت چمکی ہوئی ہے۔
اور وہ خوشی خوشی برگر بنا رہا تھا۔
اِدھر برگر تیار، اُدھر عشاء کی جماعت کا وقت قریب آگیا اور ناصرتوا لپیٹنے کے بعد ایک عجیب سکون اور طمانیت سے مسجد جانے کے لیے روانہ ہوگیا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ بیشک روزی انسان کا ایسا پیچھا کرتی ہے جیسے موت، بس مثبت سمت میں محنت کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی اُسے ماں کی کہی ہوئی بات یاد آگئی: بیٹا! سونے کا بھی فائدہ ہو رہا ہو لیکن اللہ کا حکم آجائے تووہ فائدہ چھوڑ دو۔
آج اُس کا سٹال معیار اور ذائقے کی وجہ سے مشہور ہوچکا ہے، ایک ملازم بھی ہے، گاہک اس کی جماعت کی عادت سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے اُس حساب سے برگر سٹال پر آتے ہیں۔
اور حی علی الصلٰوۃ، حی علی الفلاح کی صدا پر ناصر کے ہاتھ خود ہی سامان سمیٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد عمرفاروق
I Am Muslim, I Am Not A Terrorist

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply