• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فلٹر زدہ ازدواجی رشتے اورسوشل میڈیا سائیکالوجی۔۔ شمیلہ خورشید

فلٹر زدہ ازدواجی رشتے اورسوشل میڈیا سائیکالوجی۔۔ شمیلہ خورشید

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے”جو شخص کسی کا گھر برباد کرے،شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسائے اور دونوں میں پھوٹ یا جدائی ڈالے،وہ ہم(مسلمانوں )میں سے نہیں اور جو عورت شرعی عذر کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے ،جہنمی اور منافقہ ہے جس پر جنت کی خوشبو حرام کر دی گئی”۔

دنیا میں ہوئی ٹیکنالوجی کی ترقی ہماری زندگی کو آسان سے آسان تر کر رہی ہے آپسی رابطے اب چٹکی کی   دوری پر ہیں مگر کہا جاتا ہے جہاں آسائشیں انسان کی دسترس میں آجائیں وہاں سہولت پسند انسان اس کی زیادتی سے اس سہولت سے زیادتی کر بیٹھتا ہے۔

اب دیکھیے ، مختلف ایپس اور ویب سائٹس سے ہم نے جہاں مشکلات کو آسانی میں بدلنا تھا اسکا بھرپور اچھا استعمال کرنا تھا وہیں معاشرے میں ہوئی خرابیوں کے پس منظر میں انہی  کے استعمال سے متعلق شکایات ہر انسان کی  زبان زد عام ہے۔

بچوں کی کتابوں سے دوری اور گیمز اور کارٹونز پر زیادہ وقت دینے پر والدین کی شکایات اب عام سی  بات بن چکی ہے ،انفارمیشن کے ناقابل کنٹرول بہتے دریا کے آگے اب کوئی بھی بند کارآمد نہیں رہا۔ جبکہ اس با ت کا تعین کرنے میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے آیا واٹس ایپ پر ملنے والی معلومات کی بہتات واقعی سچائی کے میزان کے سیدھے پلڑے پر سے آئی ہے یا غیر ضروری معلومات کا یہ آگ کا دریا ہمیں اپنی تپش سے ہلاک نہ کردے۔

تمہید کے لئے تو یہ باتیں اپنی جگہ مگر اس ٹیکنالوجی کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ میرے خیال سے ازدواجی تعلقات ہیں جو پورے خاندان پر اثر انداز ہوکر معاشرے کو مکمل طور پر بیمار کر رہا ہے جیسے کرونا ایک وبائی بیماری ہے جس سے ساری دنیا متاثر ہے وہیں سوشل میڈیا دوسری جانب وبائی  زہر سے کم نہیں جسکا اثر آہستہ مگر مکمل طور پر زندگیاں اجاڑ رہا ہے۔

رشتے ختم کرنا یا توڑ دینا یقینا ًبہت تکلیف دہ عمل ہے۔شاید ہم خود بھی ذمہ دار ہیں اپنی بربادی کے۔ہمارا سب سے بڑا اور خطرناک نظریہ چیزوں کی نمائش ہے خواہ وہ کپڑے ہوں جوتے ہوں تصویریں ہوں یا رشتے ہوں۔ہم نمائش اور دوغلے پن کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بس ۔۔۔ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا ۔اور ہم نے اس دوہرے معیار کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔پاکستان میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔۔آخر کیوں؟

خاوند بیوی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے بیوی خاوند کو یہاں تک کہ معصوم بچوں تک کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔1970 میں پاکستان میں طلاق کی شرح 13 فیصد تھی جس میں اب تک 60 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔دوشادی شدہ افراد میں قربانی دینے کے عزم میں کمی ،عدم برداشت ،دو خاندانوں میں بغاوت سماجی اسٹیٹس،حرص وہوس اور میاں بیوی کے درمیان شک پیدا ہونا بھی اک بڑی وجہ ہے۔اور دوسری طرف آئے دن سوشل میڈیا پر اپنی پرسنل لائف کو شیئر کرنا ،کھانا کھانے کی تصویریں اٹھنے   بیٹھنے کی، کپلز کی ،بچوں کی، خوشی کی، غمی کی یہاں تک کہ  فیملی ایشوز تک شیئر کیے جاتے۔

ایک دن شادی کے فنکشن کی نمائش دوسرے دن پریس کانفرنس انٹرویوز تیسرے دن ہنی مون کی تصویریں ویڈیوز اور چوتھے دن روایتی شوہر نے اپنا رنگ ڈھنگ دکھایا بیوی نے  بھی حصہ ڈالا اور کچھ ہی پل میں قسمیں وعدے سب ختم ،منہ ماری تک نوبت آئی اور پھر طلاق کروا کے دم لیا ۔ بات ختم کہانی ختم۔بس اتنی سی مدت تھی ؟۔کیا تمہیں اک دوسرے کا لباس قرار نہیں دیا تھا ؟کیا نکاح جیسے خوبصورت بندھن کا یہی اختتام تھا؟۔

یہاں نکاح کے بعد شادی کے بعد یہاں تک کہ  بچوں کی پیدائش کے بھی بعد لوگ کہتے ہیں ہم ایک دوسرے کیلئے بہتر نہ تھے۔۔۔ہمیں کوئی اور پسند ہے جو زیادہ بہتر ہے۔جب ذمہ داری اٹھانے کی رشتہ نبھانے کی طاقت نہ تھی؟ تو ظلم کیوں کیا؟؟کیوں رسوا کیا ؟؟

یہ وہ شکایات ہیں جو آج ہر زبان پر  ہیں، مختلف ٹرینرز اس پر سیمینارز منعقد کر رہے ہیں اور ایکسپرٹس کے آرٹیکلز اپنی آراء سے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں مگر بہت ضروری ہے اس معاملے پر ہر عام و خاص بات کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آیا کہ یہ وبائی مرض نہیں کہ جس کے لئے حکومتی سطح پر ہونے والی پیش رفت نظرآئے مگر منظر نامہ بتاتا ہے معاشرے میں موجود سوشل ایشوز کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کا تعین کرتے ہیں
، جس کی مثال یورپی ممالک میں نوجوان نسل کی سوشل میڈیا سے ہوئی تباہ کاریوں کے پیش نظر بڑی تعداد میں نفسیاتی امراض کا شکار ہونا ہمیں اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے پر زور دیتا ہے کہ وہ وقت جب ہماری نوجوان نسل اس کے اچھے اور برے  استعمال کو سمجھ لے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فلٹر زدہ ازدواجی رشتے اورسوشل میڈیا سائیکالوجی۔۔ شمیلہ خورشید

  1. بالکل بوگس تحریر۔۔کوئی قابلِ ستائش بات یا اضافی چیز نہیں نظر آئی۔ تمہید کے ساتھ ہی اختتام۔ آخر لکهنے والا کہنا کیا چاہتا ہے? اس کے سدِباب کے بارے میں بهی کوئی تجویز نہیں۔ مکالمہ کو چاہيے کہ پہلے تحاریر کو پرکهے لکهنے والے کے معیار کو جانچے اور پهر پبلش کرے تا کہ قارئين کو بہتر سے بہتر مواد میسر آ سکے۔شکریہ

Leave a Reply