تقریر جو کی جا سکتی تھی/محمود اصغر چوہدری

مولانا طارق جمیل نے اپنی حالیہ تقریر میں ایک بزرگ کا خواب بیان کیا ہے کہ انہوں نے ان کے بیٹے عاصم جمیل کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنت میں کھڑے دیکھا ہے ۔ خواب دیکھنے والے کے بارےمولانا نے بتایا ہے کہ وہ ایک دن میں ایک لاکھ دفعہ درود شریف پڑھتے ہیں قطع نظر اس بات کے کہ ایک دن میں تو صرف 86400سیکنڈ ہوتے ہیں تو بزرگ ایک لاکھ دفعہ درود شریف کون ساٹربو لگا کر پڑھتے ہیں اس بات کو تسلیم ہی کر لیتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے علما تو ہمیں اس سے بھی بڑے بڑے محیر العقول واقعات اکثر سناتے رہتے ہیں کہ فلاں بزرگ گھوڑی کی ایک رکاب میں پاؤں رکھتے تو آدھا قرآن ختم کرلیتے اور دوسری رکاب میں پاؤں رکھنے تک پورا قرآن ختم کرچکے ہوتے ۔ یا پھر فلاں بزرگ ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر آدھا قرآن اور دوسری ٹانگ پرکھڑے ہو کر دوسرا قرآن ختم کرتے یا پھر فلاں بزرگ اتنے سال تک کنویں میں الٹے لٹک کر فلاں عبادت کرتے رہے ۔ یا پھر فلاں بزرگ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے چاند میں جاکر چھپ جاتے تھے یا پھر فلاں بزرگ اتنے سال تک عشاء کے وضوسے فجر کی نماز پڑھتے رہے جیسے عجیب وغریب بلنڈر سناتے ہیں اور ہم بغیر کوئی گوگل کئے یا پھر بغیر کوئی کمپیوٹر نکالے ان کی ان بونگیوں کو من و عن تسلیم بھی کر لیتےہیں ۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عجیب وغریب کرامات و طلسمات سے عام آدمی کو کیا سیکھنے کا موقع ملتا ہے؟ ۔ کچھ بھی نہیں سوائے اس بات کے کہ اس بزرگ کی غلامی میں مزیددھنس جاتے ہیں ۔
میں اس سے پہلے مولانا طارق جمیل کے دکھ اور ان کے بیٹے کی ذہنی کیفیت کے حوالے سے تفصیلی لکھ چکا ہوں کہ کوئی بیمار ذہن ہی ہو گا جو اس دکھ کی گھڑی میں مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی موت پر مفتی بنے گا یااس کی موت پر جنت جہنم کی بحث چھیڑے گا لیکن جب میں نے مولانا کو اپنے بیٹے کی میت پر تقریر کرتے ہوئے یہ بیان دیتے سنا کہ میرے بیٹے کو اللہ سے ملنے کی بہت جلدی تھی ۔ وہ ہروقت یہی پوچھتا رہتا کہ میں اللہ سے کب ملوں گا ۔ تومجھے ان کی یہ گفتگو سن کر بہت عجیب لگاتھا ۔مولانا صاحب نوجوانوں کو یہ کس قسم کی ترغیب دے رہے ہیں یعنی دوسرے الفاظ میں ایسی خودکشی کو گلیمرائز کر رہے ہیں جس میں کوئی نوجوان خدا کی محبت میں مرنا چاہ رہا ہے ۔ کیا خدا کی محبت میں اس سے ملنے کو جلدی کرنی چاہئے ؟ کیا خدا کی محبت اور اس کے ملن کی تڑپ رکھنے والوں کی یہ نہیں سکھایا جا سکتا کہ اگر اس سے ملن کی اتنی ہی خواہش ہے تو انسانوں سے محبت کرنا سیکھ لو کیونکہ وہ تو ہر انسان کے دل میں رہتا ہے ۔

مولانا طارق جمیل دنیا کے پُر اثر ترین مسلمانوں کی لسٹ میں 32ویں نمبر پر آتے ہیں۔ ان کی گفتگو دلوں کو بدل دیتی ہے ۔ ان کا اپنا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے وہ چاہتے تو ایک بڑی پُر اثر تقریر کرتے اور ڈپریشن سمیت ہر ذہنی مرض پر مفصل گفتگو کرتے کہ اے لوگو!اپنے بچوں کو وقت دو ۔ ان سے مکالمہ کرو۔ لوگو! ایک دوسرے کو تنہا نہ چھوڑو ایک دوسرے کی گفتگو سنو ،ایک دوسرے کی بیماری پر طعنہ نہ دو ،عیب جوئی نہ کرو۔ لوگو ڈپریشن بڑا موذی مرض ہے یہ لوگوں کی جان تک لے سکتا ہے ۔ بائی پولر ڈس آرڈر اور ڈیسلیکیسا کو جاننے کی کوشش کرو۔ کچھ بچے اگر سکول میں نالائق رہ جاتے ہیں تو یقین مانو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا ۔ انہیں لفظوں کی پہچان نہیں ہوتی ۔ کچھ مدرسوں میں جو بچوں کو سنگل ڈال کر اذیتیں دی جاتی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کووہ پڑھنا نہیں چاہتے تو میں تمہیں اپنے ذاتی تجربے سے بتاتا ہوں کہ وہ تعلیم سےنہیں بھاگ رہے ہوتے بلکہ ہوسکتا ہے انہیں آٹزم یا ڈیسلیکیسا کی کوئی بیماری ہو ۔ لوگو !خدا کا خوف کرو اور کسی کی بیماری پر اسے گناہگار کر سرٹیفیکیٹ نہ دے دیا کرواور کسی کی موت پر مفتی نہ بن جایا کرو

وہ اپنے مبلغ دوستوں اور علما ئے کرام کو لیکچر دیتے کہ کسی کی بھی خود کشی پر بھی حرام موت کا فتوی دینے سے پہلے اس جج کی طرح محتا ط ہوجایا کرو جو کسی قتل کے مجرم کو بھی سزا دینے سے پہلے جرم کی نوعیت اور قتل کے حالات و واقعات کی ایک ایک جہت ایک ایک پرت جاننے کی کوشش کرتا ہے اور صرف اسی بنا پر سزا سناتا ہے ۔ اگر ایک عام دنیاوی جج اس طرح کے ساری باریکیاں دیکھتا ہے تو وہ خدا جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے کیا وہ اپنے کسی بندے کی اپنی ہی جان کو قتل کر دینے کی باریکیاں نہیں دیکھتا ہوگا ؟ لوگو! میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر تمہیں بتا رہا ہوں کہ اولاد کی موت کے دکھ سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہے لوگو میں نے اپنے ساتھ ہوتی ٹرولنگ کو دیکھ کر گہری تکلیف محسوس کی ہے ۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ دنیا میں پہلے ہی بہت سے دکھ ہیں ان دکھوں میں جنت اور جہنم کی بحثیں چھیڑ کر کسی کی موت کو بھی تضحیک کا پہلو نہ بنایا کرو۔۔۔۔

پتہ نہیں کیوں اتنی موثر اور شیریں زبان رکھنے والے مولانا صاحب نے جانے کیوں تبلیغ کا اتنا بڑا پہلو پس پشت ڈال کر خود ہی جنت جہنم کی بحث چھیڑ دی ہے کہ لوگ اب یہ کہنے لگے ہیں کہ عام آدمی کی خود کشی پر تو جہنم ملتی ہے لیکن جب علما کے اپنے رشتہ داروں کی باری آتی ہے تو نہ صرف جنت بلکہ سیدھا حضو ر نبی کریم ﷺ کی سنگت مل جاتی ہے ۔ ان باتوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ اگر ایسا کوئی خواب آبھی گیا ہے یا ایسی کوئی بشارت مل بھی گئی ہے ۔تو اسے لوگوں کو سنا کر خود کشی جیسے عمل کو متبرک بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔۔

کسی کتاب میں ایک واقعہ پڑھا تھا ۔ کسی شخص کو اپنی بیٹی کی شادی کی بڑی فکر تھی کہ اس کا مستقبل کیسا ہوگا ۔ ان دنوں دور گاؤں میں ایک پنڈت جی کا بڑا شہرہ تھا کہ وہ ایسے کنڈلی نکالتے ہیں اور ایسا پاٹ اور ایسی دعا کرتے ہیں کہ بچوں کے مستقبل سنور جاتے ہیں ۔ اس نے لمبا سفر کیا اور پنڈت جی کے گھر پہنچ گیا ۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دیگر لوگ بھی اپنے اپنے لئے دعا کرانے بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ جا کر چار پائی پر بیٹھ گیا اتنی دیر میں ایک نوجوان خاتون سفید ساڑھی میں ملبوس آئی اور مہمانوں کو شربت دینا شروع ہوگئی ۔ اس شخص نے پوچھا یہ خاتون کون ہیں جو مہمانوں کی تواضع کر رہی ہیں اور یہ سفید ساڑھی میں ملبوس کیوں ہیں ۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ پنڈت جی کی بیٹی ہے ۔ بے چاری جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی ہے ۔ اس نے شربت کا گلاس ختم کیا اور اٹھ کھڑا ہوا وہ سوچنے لگا کہ جو پنڈت اپنی بیٹی کی کنڈلی صحیح طریقے سے نہیں نکال سکا اور جس کی دعا اپنی بیٹی کو نہیں لگی اس سے کیا امید رکھنی ہے

مولانا صاحب کو چاہیے کہ لوگوں کو بتائیں کہ لاکھوں لوگ میرے اجتماعات میں دعا کے لئے حا ضر ہوتے ہیں ۔ ہزاروں لوگ اپنے بچوں کی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تقدیر کے لکھے کو میں بھی نہیں ٹال سکا تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ لوگ بھی صرف اسی اللہ پر بھروسہ رکھیں اور اسی سے دعا کریں اور اپنے دکھ درد میں اسی کو پکاریں۔ اپنی دنیاوی کوششیں ضرور کریں لیکن پھر اگر کوئی تکلیف آجائے تو اس کی رضا پر راضی ہوجائیں۔سر خم تسلیم کر لیں ۔ دعا ضرور کریں لیکن پوری ہونے کی شرط نہ رکھیں ۔کیونکہ خدا سے محبت میں شرطیں نہیں ہوتیں ۔ آسمان کی طرف منہ کر کے آپ وائے می نہیں کہہ سکتے ۔ یہ سوال نہیں کر سکتے کہ اے خدا میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ آپ دم نہیں مار سکتے ۔ آپ یہ سوال نہیں کر سکتے اے اللہ میں تو ہزاروں دلوں کی ڈھارس بندھاتا ہوں ۔ مجھے ایسا دکھ کیوں ملا ۔ آپ موازنہ نہیں کر سکتے ۔ آپ دوسروں کا حوالہ نہیں دے سکتے ۔ آپ زعم میں مبتلا نہیں ہوسکتے ۔ آپ بس خدا کے سامنے اسی پیغمبر کی طرح عرض کر سکتے ہیں ۔ انما اشک بثی وحزنی الی اللہ ۔۔ اے اللہ میں اپنے غم و الم کی فریاد صرف تجھ ہی سے کرتا ہوں ۔۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply