• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران میں مسئلہ کیا تھا؟۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

ایران میں مسئلہ کیا تھا؟۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

حسب عادت صبح صبح انٹرنِٹ آئے تو ہر نیوز سائٹ پر امریکی صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے چرچے تھے کہ ایران میں ہونے والے احتجاج پر دنیا کی نظر ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا ہو یا ویب سائٹس ہوں، مغربی میڈیا جو کچھ بتا رہا تھا، اردو میڈیا میں من و عن نشر ہو رہا تھا۔ حیرانگی کی بات ہے کہ اس احتجاج کی حمایت میں اسرائیل اور امریکہ ایسے پیش پیش تھے جیسے یہ جلوس تل ابیت یا نیویارک میں نکالے جا رہے ہوں۔ مغربی میڈیا چند جلتی گاڑیوں اور عمارتوں کی تصاویر کو بار بار دکھا رہا تھا، جیسے پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہو۔ جس احتجاج کی خبر دنیا کے میڈیا کو بذریعہ ٹرمپ پہنچے اور جس کی حمایت میں پورا اسرائیلی میڈیا یک آواز ہو جائے، اس کی حقیقت ویسے ہی مشکوک ہو جاتی ہے۔ ایران کے موجودہ مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں مسئلہ کیا تھا اور اسے کیا بنا دیا گیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران پر بین الاقوامی طاقتوں نے بے رحمانہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، ایرانی بنکوں اور مالیاتی اداروں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ ایرانی حکومت نے بڑی دانش مندی سے بین الاقوامی طاقتوں سے مذاکرات کئے اور ایک معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایرانی عوام کو بڑی توقع تھی کہ اس معاہدہ کے نتائج بہت جلد ظاہر ہوں گے اور ان کی مالی مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ استعماری نظام اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ وہ اپنے مدمقابل جنم لینے والی کسی بھی آواز کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس معاہدے کے باجود نہ تو ایرانی عوام کے اربوں ڈالر ان کو دیئے گئے اور نہ ہی اقتصادی پابندیاں مکمل طور پر ہٹائی گئیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو امریکہ نے مختلف قسم کی نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی عوام میں مالی خوشحالی کے حوالے سے جو امیدیں پیدا ہوگئی تھیں، انہیں دھچکا لگا۔

وہ جنگ جو اصفہان، تہران اور شیراز میں لڑی جانی تھی، بڑی حکمت سے اسے شام اور عراق میں لڑا گیا۔ داعش کے خاتمے سے لیکر کردستان کے ریفرنڈم تک بڑی حکمت عملی سے بین الاقوامی قوتوں کے ہر کارڈ کو ناکام بنایا گیا۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ ایرانی صدر داعش کی شکست کا اعلان کرتے ہیں، اس کے کچھ روز بعد عراقی وزیراعظم بھی اس انسانیت دشمن گروہ کی بربادی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں تھی، بین الاقوامی قوتوں نے کم از کم ایک دہائی علاقے کو جنگ میں مشغول رکھنا تھا، مگر عراقی مرجعیت، حکومت اور ایران کی حکمت عملی نے چند سال میں داعش کے فتنے کی گردن کاٹ دی۔ بین الاقوامی طاقتیں اور ان کے علاقائی اتحادی ناکام ہوئے، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب گئی، وہیں یہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے لاکھوں لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ایران، عراق اور شام کا بہت بڑا سرمایہ اس پر صرف ہوا۔

اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ عراق اور شام میں غربت میں اضافہ ہوا اور ایران میں بھی اس کے اثرات  لازمی سی بات ہے، وہاں بھی مالی مسائل پیش آئے۔ اسی دوران سعودی شہزادے کا بیان آیا کہ ہم اس جنگ کو ایران میں لے جائیں گےم اس وقت یہ بات محسوس کر لی گئی تھی کہ اب یہ لوگ ایران میں موجود اپنے نمک خواروں کو استعمال کرکے حالات خراب کریں گے۔ کچھ عرصہ پہلے ایران میں مہنگائی ہوئی اور انڈوں کی قیمتیں کافی زیادہ بڑھ گئیں، روز مرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے پر عوام کا سڑکوں پر آنا اور اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا، ایک عام سی بات ہے اور ایران میں بھی یہی ہوا۔ کچھ لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف سڑکوں پر آئے۔ کچھ عناصر جن کو ایرانی عوام بار بار ٹھکرا چکی ہے، ان عناصر نے چند مقامات پر اس احتجاج میں نظام مخالف نعرے لگوائے اور جلاؤ گھراؤ بھی کیا۔

پرامن احتجاج عوام کا حق ہے، عوام اپنی حکومت تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے احتجاج کر سکتے ہیں، مگر تھانوں سے اسلحہ لوٹنا اور پولیس والوں پر گولی چلانا، یہ کسی مہذب معاشرے میں قبول نہیں کیا جاتا۔ روحانی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرے اور لوگوں کے روز مرہ کے مسائل حل کرے اور وہ لوگ جنہوں نے بیرونی اشاروں پر افراتفری مچائی ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ اس احتجاج میں مغربی میڈیا کے دہرے معیار کا بھی پتہ چلتا ہے، پہلے دن چند شہروں میں لوگوں نے احتجاج کیا، جسے مغربی میڈیا نے بھرپور کوریج دی اور اسے انقلاب مخالف احتجاج کے طور پر دکھایا گیا، جب عوام کو معلوم ہوا تو انہوں نے انقلاب اسلامی کی حمایت میں اور ان فتنہ پرورں کے خلاف ایران کے بارہ سو مقامات پر ریلیاں نکالیں، جن میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے، مگر مغربی میڈیا نے اسے کوئی کوریج نہیں دی بلکہ حیران کن طور پر انسانی حقوق کے بڑے عہدیدار نے انقلاب کی حمایت میں نکلنے والی ریلی کی تصاویر کو انقلاب مخالف ریلی کے طور پر شیئر کیا۔ اس سے مغربی میڈیا کے دہرے معیار کا بھی پتہ چلتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ تحریریں نظر سے گزریں، جن میں ان مظاہرین کی حمایت کا کچھ ایسا انداز اختیار کیا گیا تھا، جس سے واضح طور پر پتہ چلتا تھا کہ یہ حب علی نہیں بغض معاویہ میں لکھی گئی ہیں۔ قلم کو فرقہ واریت کی نظر کرنے والے یہ اہل قلم مسلمانوں کے دوست نہیں۔ کاش انہیں ان چند فتنہ پروروں کے وہ نعرے سنائی دے جاتے، جن میں وہ کہہ رہے ہیں کہ فلسطین کی حمایت سے دسبردار ہو جاؤ۔ فلسطین کوئی شیعہ ریاست نہیں اور نہ ہی وہاں بسنے والے شیعہ ہیں، مگر ایران کی پوری حکومت فلسطین کی حمایت میں کھڑی ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر امریکی اور اسرائیلی پابندیوں اور سازشوں کا شکار ہے اور اندرونی طور پر منافقین کی سازشیں جاری رہتی ہیں۔ اس لئے لکھنے سے پہلے اپنے قلم کو عدالت میں دھو کر اخلاص کی سیاہی سے مسلمانوں کے درمیان محبت میں ڈوبی ہوئی تحریر لکھنی چاہیے۔

 

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply