مسلم عورت اور غیر مسلم شوہر

محترم پروفیسر مشتاق اسلامی قانون کے پروفیسر ہیں۔ محترم عمار خاں ناصر اور طفیل ہاشمی کے بعد پروفیسر صاحب نے بھی اس مسلئہ پہ اظہار خیال فرمایا ہے۔ ایڈیٹر

عمار بھائی کی تحریر میں مجھے سب سے دلچسپ بات یہ لگی کہ اس نوعیت کے تعلق کو “قطعی طور پر منصوص کہنا ازروے اصول فقہ کافی مشکل ہے ۔ ”

اولاً : مجھے یہ بالکل بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ “قطعی طور پر منصوص ” سے ان کی مراد کیا ہے ؟ جہاں تک ان کے استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے “اصول فقہ “کا تعلق ہے ، اس کی رو سے تو قرآن سارا کا سارا “قطعی الدلالۃ ” ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے مسائل میں انھیں وہ قطعیت نظر نہیں آتی ؟

ثانیاً : “منصوص ” سے ان کی مراد کیا ہے ؟ ان کے مکتب ِ فکر کے اصول فقہ میں کیا ظاہر ، نص ، مفسر اور محکم ؛اور اسی طرح خفی ، مشکل ، مجمل اور متشابہ ؛ نام کی تقسیمات مقبول ہیں یا نہیں ؟ بظاہر تو نہیں کیونکہ وہ تو صرف دو ہی اصطلاحات مانتے ہیں : قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ ۔ اس لیے ان کے لیے قطعیت (محکم ) اور ظنیت ( متشابہ ) کے درمیان کے چھ مدارج ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ کیا یہ حکم صرف اسی صورت میں “منصوص” ہوتا جب قرآن طعام کی طرح نکاح کے متعلق بھی “دوطرفہ ” ممانعت کا ذکر “قطعی الفاظ ” میں کرتا ؟ اگر ہاں تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ قرآن کہیں کہیں قطعی الدلالۃ نہیں ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ثالثاً : یہ بات بھی حیران کن ہے کہ تحریم کے لیے تو وہ “قطعی طور پر منصوص ” ہونا لازمی ٹھہراتے ہیں لیکن یہی شرط وہ تحلیل کے لیے نہیں لگاتے ۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو فقہاے کرام “اشیا “میں اصلاً اباحت کے قائل ہیں ، وہ بھی کم از کم نکاح میں اصلاً حرمت کے ہی قائل ہیں ؛ یعنی ان کے اصول فقہ کی رو سے کسی سے نکاح کی حرمت کے لیے نہیں ، بلکہ اس کی حلت کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے اصولاً تو بار ِ ثبوت جناب عمار خان ناصر صاحب پر تھا کہ وہ اس “نکاح” کی حلت کا ” قطعی طور پر منصوص ہونا ” ثابت کردیتے ؟ یا پھر وہ تصریح کرلیتے کہ ان کے اصول فقہ کی رو سے نکاح میں بھی اصل حکم حلت کا ہے ۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply