“مفتی تقی عثمانی صاحب کے نام ایک خط “/محمد وقاص رشید

مفتی صاحب ! امید اور دعا کہ آپ بخیریت ہوں!
عالمی مقابلہ ِحسن میں پہلی بار پاکستانی شرکت پر آپ کی دینی و قومی حمیت نے اسے گوارہ نہ کیا اور آپ نے اس کو پاکستان اور اسلام کی بدنامی قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی۔ آپ نے اسے “نیچے گرنا” قرار دیا اور ریاست سے کم ازکم پاکستان کی نمائندگی کا تاثر زائل کرنے کے لیے کہا۔ آپ کے ٹویٹس میں اکثر ایمانی غیرت کا لفظ استعمال ہوتا ہے سو آپ اس بار ریاست کی ایمانی غیرت جگانے میں کامیاب ہوئے اور ملک کے وزیراعظم نے یوں نوٹس لیا جیسے یو این جی اے میں سیلفی لی تھی۔ میری امید یہیں سے شروع ہوتی ہے عالی مقام۔

آپ “نمائندگی” کے بارے میں اتنے حساس واقع ہوئے کہ ایک ایسے مقابلہ میں جو آپکی تفہیمِ دین میں ممنوع ہے آپ اس میں ناپسندیدہ شراکت کو بھی کم ازکم ذاتی بنانا چاہتے ہیں اور اس میں قومی نمائندگی کا تاثر رفع کرنا چاہتے ہیں ۔ کتنی کمال کی بات ہے۔

محترم مفتی صاحب ! اسی ملک میں ،اسی قوم میں، اسی ریاست میں یہ مدارس کس کی نمائندگی کرتے ہیں ؟ ایک مفتی صاحب ہونے کے ناطے آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ پاکستان میں مدارس کس کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ایک ایسا مقابلہِ حسن جہاں آپ شریکِ کار کے اس فعل کو نیچے گرنا قرار دے کر ریاست کو قومی نمائندگی کے تاثر کو ختم کرنے کا کہتے ہیں اور ریاست آپکی حساسیت کے احترام میں متحرک بھی ہو جاتی ہے حالانکہ اگر یہ نمائندگی بالفرضِ محال ریاستی سطح پر ہو بھی تو اس سے آپکی ذات پر حرف آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن پاکستان کے مفتیِ اعظم ہوتے ہوئے آپکی باقاعدہ نمائندگی کرتے مدارس میں آئے روز قبیح ترین انسانی جرائم پر آپکی حساسیت کہاں ہے جنابِ والا۔؟

صرف گزشتہ چند دنوں میں آپکے نمائندہ مدارس میں انسانیت کو داغدار کرتے چار واقعات نہیں ،بلکہ سانحات کا جائزہ لیجیے گا۔ یہ وہ سانحات تھے جس پر میں نے بہت سے عام لوگوں کی روحیں لرزتے دیکھیں ، آنکھیں خون کے آنسو روتے دیکھیں ، دل ریزہ ریزہ ہوتے دیکھے جو شاید اہلِ مذہب کی نظر میں دنیا دار ہیں۔

خانیوال میں جامعتہ الحبیب نام کے مدرسے میں ایک یتیم و یسیر بچے کو اس مدرسے کے جنسی درندے قاری نے رات بھر اتنی بربریت کا نشانہ بنایا اور شدید زخمی ہونے پر اسکے گھر چھوڑ گیا اور دو ہزار روپے اسکی چچی کو دے کر کہنے لگا کہ اس کو یہ بیماری پہلے سے تھی کہ نازک حصے سے خون آتا تھا۔

رائے ونڈ میں ایک مدرسے میں اس بچے سے بھیڑیے مُلاں نے زیادتی کی جس کی کچھ دن پہلے ماں فوت ہو گئی تھی۔ اسے باقاعدہ مدرسے کے دوسرے بچوں کے ساتھ مل کے پھانسا اور پھر اسکے ساتھ بد فعلی کی۔ اسکے اپنے باپ کو بتانے کی دھمکی پر اسے پہلے شدید تشدد کا نشانہ بنایا پھر چھت سے نیچے پھینک دیا۔ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا تو اس عالم میں دوسرے بچوں سے اسکا غسل دلوایا اور پھر حالت غیر ہونے پر ہسپتال پہنچایا۔ مدرسے کے منتظمِ اعلیٰ  سے مل کر طبعی موت کا باپ کی اعترافی اشٹام بنوایا۔ بچہ مر گیا تو باپ پر دباؤ ڈلوایا کہ طبعی موت قرار دلوائے۔

لاہور میں انس کو محض بارش میں ایک دن چھٹی کرنے کی سزا اذیت ناک ترین سزائے موت کی صورت دی گئی۔ اسکے بھائی کے سامنے اسے داڑھیوں کے پیچھے چھپے ہوئے تین درندوں نے زمین پر پٹخ پٹخ کر جان سے مارا۔ محلے کے لوگوں کے مطابق پہلے بھی ایک بچے کو مار چکے  ہیں ،جسے مولوی عبد العزیز والی جماعت بچا کر لے گئی۔

اور کل کی خبر کے مطابق ملتان میں ایک بچہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے کیونکہ ذہنی مریض متششدد بیمار ذہنیت کے مُلاں نے اسکی زبان کے نیچے کیل گاڑ دیا تھا جس کو وہ درد کی شدت میں چیختے چلاتے نگل گیا۔ اور اس وقت اسکو مُلاں کے آگے مالِ غنیمت میں بیچ کر جنت خریدنے والے ماں باپ اسکے سر پر بین کر رہے ہیں ۔

مفتی صاحب محترم ! یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے ہم انکی یاد منا رہے ہیں جو خود تو یتیم و یسیر تھے ہی مگر پیغمبر بن کر یتیم کو کہا، محمد تیرا باپ ، جنہوں نے کہا جو بچوں سے شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ، جو کہ رحمت للعالمین تھے۔ آج خود کو انکا وارث اور آپکا نمائندہ کہنے والے یتیم و یسیروں کو پہلے اپنی سفلی پراگندگی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور پھر انکی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ محض بارش کی وجہ سے چھٹی کرنے پر اذیت دے دے کر قتل کر دیتے ہیں۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو خبروں کی زینت بن کر اس نام نہاد تعلیم و تدریس کی آڑ میں انسانی جرائم کی قلعی کھولتے ہیں وگرنہ جہاں قلم اور کیمرہ نہیں پہنچتا وہاں بالاہتمام اس تقدیس کی آڑ میں ذہنی ، جسمانی ، روحانی اور جنسی تشدد کا یہ مکروہ دھندہ جاری رہتا ہے۔

مفتی صاحب ! جانتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ جیسی ذی قدر شخصیت کی حساسیت محض مقابلہِ حسن تک محدود ہے۔ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ ان سے نمائندگی کی برات کا اعلان فرماتے ہوئے ٹویٹ کر کے ریاست کو ان مظلوم بچوں کی دادرسی کرنے کے لیے نہیں کہیں گے۔

میں یہاں بصد ادب و احترام یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان واقعات میں آپ کو کوئی “نیچے گرتا” محسوس نہیں ہوا ؟کیا مفتیِ اعظم ہونے کے ناطے اپنے نمائندہ مدارس میں آپکو قبیح ترین انسانیت سوز جرائم کسی مقابلہِ حسن جتنے ناپسندیدہ بھی محسوس نہیں ہوتے کہ آپ اس نمائندگی کا تاثر زائل کرنے کے لیے ایک ٹویٹ ہی فرما دیں ؟

پاکستانی عورت کا مقابلہِ حسن میں شریک ہونا بے حیائی ہے ، تو پاکستانی معصوم بچے بچیوں کا خدا کے گھر میں ریپ ہونا کیا حیا کی علامت ہے۔ ؟مقابلہِ حسن میں کسی پاکستانی عورت کی موجودگی کی خبر سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے تو کیا چھوٹے چھوٹے معصوموں کے خدا کے گھر میں سسک کر مرنے کی آئے روز کی خبروں سے نیک نامی ہوتی ہے۔ ایک پاکستانی عورت کے مقابلہ حسن میں شریک ہونا اگر نیچے گرنا ہے تو آپکے نمائندہ پاکستانی ملاؤں کا پاکستانی معصوم بچوں پر مقابلہِ جنسی درندگی ، مقابلہ ِ بہیمانہ تشدد اور مقابلہِ اذیت ناک قتل کا اوپر اٹھنا ہے۔؟

آپ کے قدموں میں بیٹھ کر آپ سے ہاتھ باندھ کر گزارش ہے کہ خدا کے واسطے ، رسولِ کریم ﷺ کے صدقے ان بچوں پر رحم فرمائیں ،اگر خدا نے آپ کو اتنی عزت و منزلت عطا فرمائی ہے تو اسکو ان معصوموں کے حق میں بھی ذرا سا استعمال کیجیے۔ کسی ریپ پر ، کسی تشدد پر ، کسی قتل پر کسی قتل چھپانے پر اور کسی نمائندگی کے پیچھے چھپنے پر ایک ٹویٹ ان بچوں کے لیے بھی جن کے ماں باپ انکے بچپن تج کر اپنی جوانیاں اور بڑھاپے بخشواتے رہتے ہیں۔

وگرنہ وہ عدالت تو لگنی ہی ہے جس میں آپ سے مقابلہِ حسن سے نمائندگی ختم کروانے کے متعلق سوال ہو یا نہ ہو مفتیِ اعظم کی نمائندگی میں کل کے قاری ، عالم اور مفتی بننے والے بچوں سے برتے جانے والے ظلم کے متعلق تو سوال ہو گا۔ آپ وہ جواب ہی ٹویٹ کر دیجیے۔ ۔۔
خدا آپ کو اور عزت و منزلت عطا فرمائے
“مدارس میں بچوں کی حالتِ زار پر کڑھتا ایک پاکستانی”

Advertisements
julia rana solicitors

پس ِتحریر ! دینی مدارس میں انسانیت سوز سانحات پر آخری درجے کی ڈھال اس موقف سے مہیا کی جاتی ہے کہ سکولوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ واشگاف الفاظ میں اسکی بھی مذمت ہے مگر یہ فرق ملحوظ رکھا جائے کہ سکولوں میں عدم تشدد کی پالیسی پر ریاست جیسے تیسے سہی بہرحال گامزن ہے۔ سکول کی تدریس میں بچوں کو گھر بدر نہیں ہونا پڑتا۔ سکولوں میں بچے روزانہ سہ پہر میں گھر پہنچ کر ماں باپ کی نگاہ میں رہتے ہیں۔ سکولوں میں جنسی ، جسمانی ، روحانی اور نفسیاتی تشدد کا یہ عالم قطعی نہیں اور آخری بات یہ کہ سکول کے استاد اور استانیاں خود کو انبیاء کے وارث نہیں کہتے اور آخر میں یہ سوال کہ کسی سکول میں دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کسی بچے کو ریپ کر کے قتل کر کے جبرواستبداد کے ذریعے طبعی موت ثابت کرنے کا کوئی واقعہ آپ نے کبھی سنا ؟ 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply