قصّہ اک شہر بدر کا(قسط1)۔۔شکور پٹھان

دسمبر کے بالکل آخری دنوں کی ایک چمکیلی صبح تھی جب گلف ائیر کے بوئنگ 727 نے بحرین کی زمین چھوئی۔ ائیرپورٹ کی خوبصورت اور جدید عمارت کے پاس جہاز سرنگ لگنے کا منتظر تھا۔ آس پاس کچھ اور بھی جہاز تھے اور ان سب سے کچھ ہٹ کر ایک عجیب الخلقت، بہت ہی بڑا سا جہاز کھڑا تھا۔ یہ بی او اے سی کا کونکورڈ طیارہ تھا۔ یہ طیارہ اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔

یاد نہیں کن مراحل سے گزر کر باہر آیا، جہاں چچا مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے۔ میرے ایک ہاتھ میں سوٹ کیس اور دوسرے میں خالی شولڈر بیگ تھا جس میں کہیں کونے میں ایک امرود پڑا ہوا تھا۔ چچا نے سوالیہ انداز میں بیگ کی جانب دیکھا۔

کراچی سے چلتے ہوئے گھر والوں اور رشتہ داروں نے بہت ساری مٹھائیاں، نمکو کے پیکٹ اور جانے کیا کچھ الا بلا دے رکھا تھا۔ آنے سے کچھ دن پہلے چچی نے لکھا تھا کہ امرودوں کا موسم ہے ، اگر سامان میں جگہ ہو تو کچھ امرود ساتھ لیتا آؤں ۔انہیں امرود بہت پسند تھے۔ میں نے بہت اعلیٰ  نسل کے ملیر کے دو کلو امرود بھی مٹھائیوں اور کھانے کی دوسری چیزوں کے ساتھ بیگ میں ڈال دئیے۔ ارادہ یہ تھا کہ یہ بیگ میرے ساتھ رہے گا۔ ائیر پورٹ پر چیک ان کرتے ہوئے عملے نے پوچھا کہ سامان کیا ہے۔ میں نے سوٹ کیس اور بیگ سامنے کردئیے۔ انہوں نے دونوں لے کر کنوئیر بیلٹ پر ڈال دئیے۔ میری سمجھ میں  ہی نہیں آیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ بیگ پر کوئی تالا وغیرہ نہیں تھا۔ بحرین ائیرپورٹ پر دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنا سامان اٹھایا تو سوٹ کیس تو پورا مل گیا لیکن شولڈر بیگ پورا خالی تھا۔ ایک چھوٹا سا امرود ایک کونے میں پڑا میرا منہ چڑا رہا تھا۔ پتہ نہیں یہ کراچی والے بھائیوں کی مہربانی تھی یا بحرین والوں نے اپنے تحفے وصول کیے تھے۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ بحرین والے ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔

یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ ذکر کیا جائے لیکن جب بھی اپنی بحرین آمد کو یاد کرتا ہوں یہ بات ضرور یاد آتی ہے۔ شاید پردیس اور دیس میں یہی پہلا بڑا فرق تھا جو میں نے دیکھا۔ یہی کچھ میں پیچھے چھوڑ کر آیا تھا۔

پیچھے تو بہت کچھ چھوڑ آیا تھا۔ امی ابا، بہن بھائی، دوست، پڑوسی، محلہ، گلیاں اور شہر۔ لیکن اس وقت تو صرف اس چمکیلی، روشن، گلابی سی صبح کو دیکھ رہا تھا۔ بحرین اور کراچی کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے اور تقریباً اتنا ہی دورانیہ پرواز کا تھا۔ جب اترا تو وہی وقت تھا جو کراچی سے چلتے وقت تھا۔ چچا نے سوٹ کیس لیکر اپنی کار میں ڈالا اور ہم منامہ کے لیے روانہ ہوئے۔

آس پاس ایسی کوئی غیر معمولی چیز نہیں تھی سوائے اس کے کہ خنکی کراچی کی نسبت یہاں زیادہ تھی۔ چچا نے ایک پٹرول پمپ سے پٹرول بھروایا۔ میں اپنی دھن میں مگن باہر دیکھتا جارہا تھا۔
“ انکل یہ تیل کے کنویں کہاں ہیں”۔
“ تیل کے کنویں؟” چچا نے حیرت سے پوچھا۔
“ ہاں ۔یہ ہوا میں پٹرول کی بو ہے”
“ بے وقوف ، ابھی پٹرول بھروایا تھا اس کی بو کار میں بسی ہوئی ہے۔ “ چچا نے بتایا کہ بحرین میں کوئی پٹرول شٹرول نہیں نکلتا۔ البتہ ایک ریفائنری ہے جس میں پائپ لائن کے ذریعے سعودی سے تیل آتا ہے۔

کچھ ہی دیر میں ہم گھر پہنچ گئے تھے۔ چچی ہماری منتظر تھیں۔ ان سے مل کر میں اندر کی جانب چلا جہاں ان کے دو پیارے پیارے بچے سو رہے تھے۔ بڑی دوسال کی تھی اور چھوٹا چھ سات ماہ کا تھا۔ چچا کچھ دن پہلے ہی کراچی سے  آئے تھے اور یہ دونوں میری جان تھے۔ بحرین آنے کی ایک سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ اب میں جی بھر کر ان کے ساتھ رہ سکوں گا۔

چچا اور چچی سے میرا رشتہ بڑا عجیب وغریب ہے۔ ہم انہیں انکل کہتے ہیں۔ ہم کوکنیوں میں اپنے پیاروں کو انگریزی رشتے سے پکارنے کا بڑا رواج ہے۔ اکثر بڑے بھائی کو برادر، بہن کوسسٹر، چچا کو انکل اور چچی یا خالہ کو آنٹی وغیرہ پکارنا عام ہے۔ اگر کسی کو خالہ اماں پکارنا ہو تو انہیں  “ خالہ مدَر” بھی پکارا جاتا ہے۔ سب سے دلچسپ اپنے دیور یا جیٹھ کو پیار یا احترام سے “ مسٹر” کہنا بھی ہے۔ ہمارے گھر میں تو یہ کھچڑی بہت زیادہ پکی ہوئی ہے، ہم سب الحمدللّٰہ ایک دوسرے سے اس قدر گندھے، بندھے ہیں کہ باہر والوں کو ہمارے رشتے ہی سمجھ نہ آئیں۔ امی جب شادی ہوکر آئیں تو دونوں چچا بہت چھوٹے تھے۔ امی نے انہیں بڑی بہن نہیں بلکہ ماں کی طرح پالا تھا۔ بڑے چچا کو وہ “ مسٹر” پکارتی تھیں اور چھوٹے چچا کو ان کے نام سے۔ چھوٹے چچا مجھ سے چند سال ہی بڑے تھے اور ہم دونوں میں دوستی اور بے تکلفی کا رشتہ تھا اور میں انہیں ان کے نام سےپکارتا تھا۔

بڑے چچا یعنی انکل سے میں ڈرتا بھی تھا، بے تکلف بھی تھا، ان سے دوستی اب بھی بہت گہری ہے ۔ بچپن سے وہ میرے آئیڈیل ہیں۔ میں تعلیم، کھیل یا کسی اور چیز میں کوئی کارنامہ کروں تو میری پہلی خواہش ہوتی ہے کہ چچا کو اس کی خبر ہو۔ ان کی تعریف سے میرا سیروں خون بڑھ جاتا ہے، سینہ چوڑا ہوجاتا ہے۔ انکل اور مجھ میں زبردست ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ انہیں شعروادب کا بہت اعلیٰ ذوق ہے۔ موقع محل کے لحاظ سے بہت معیاری اشعار ان کی نوک زبان پر رہتے ہیں ۔ بڑے بڑے شاعر اور ادیب ان کے بے تکلف دوست رہے ہیں۔ چچا ساٹھ سال سے بحرین کی ادبی اور سماجی زندگی کی جان ہیں۔ اب تو بحرین بہت پھیل گیا ہے اور آبادی بہت زیادہ ہوگئی ہے ورنہ ایک وقت تھا کہ بحرین کا ہر فرد انہیں جانتا تھا۔ اگر کوئی ائیرپورٹ پر ٹیکسی ڈرائیور کو صرف اتنا بتادے کہ نور پٹھان ، “غاز البحرین “والے کے پاس جانا ہے تو وہ بغیر پتہ پوچھے نور صاحب کے پاس پہنچا دے گا۔

چچی کو میں چچی نہیں بھابی کہتا ہوں لیکن ہمارا رشتہ دیور بھابی کا بھی نہیں بلکہ بہن بھائی سے زیادہ دوستی کا ہے۔ میں نے کہا ناں کہ  ہمارے رشتے پہچاننا آسان نہیں۔ یہی حال ہمارے تمام دوسرے رشتوں کا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان تمام رشتوں میں چچا کو اور مجھے خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ چھوٹے چچا تو اب نہیں رہے۔ بڑے چچا اور چھوٹی پھوپھی حیات ہیں اور ہم سب کی محبت اور دعاؤں کا مرکز ہیں۔

“ یہ تمہارا کمرہ ہے” کونے والے بڑے سے کمرے میں میرا سوٹ کیس رکھ کر چچا بولے۔
“ ارے نہیں۔ میں کہیں بھی رہ جاؤں گا۔” مجھے یقین نہ آیا۔

دراصل بچپن سے اب تک ہم ایک مشترکہ خاندان تھے۔ کراچی میں گھر میں اور کمرے ہونے کے باوجود زیادہ تر ایک بڑے سے کمرے میں کئی پلنگ بچھے ہوتے یا پھر گرمیوں میں صحن میں سب کی چارپائیاں بچھی ہوتیں۔ اپنا علیحدہ کمرہ تو میرے لیے ایک خواب کی مانند تھا۔ اور اس کمرے میں نہ صرف میں اکیلا بڑے سے ڈبل بیڈ پر سونے والا تھا، بلکہ سرہانے ایک “ ڈیک” اور بہت ساری کیسیٹس رکھی ہوئی تھیں۔ یہ تو خیر بتانے والی بات ہی نہیں کہ ائیرکنڈیشنر بھی تھا لیکن اس وقت اس کی ضرورت نہیں تھی۔ تو پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔ دوپہر کا کھانا کھاکر اور کچھ دیر چچا چچی سے گپ شپ کرکے میں کمرے میں آیا اور بستر پر لیٹتے ہی نیند نے آ لیا۔

ظہر، عصر، مغرب اور شاید عشاء کے بعد میری آنکھ کھلی۔ عشاء ان دنوں وہاں چھ ساڑھے چھ بجے ہوجاتی تھی۔ باہر اندھیرا پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ چچی انتظار میں تھیں کہ میں اٹھوں تو وہ چائے لے آئیں۔ چائے پی کر طبیعت مزید بشاش ہوگئی۔

“ میں ذرا باہر ہوکر آؤں” میں نے پوچھا۔
“ تمہیں راستوں کی خبر ہے”
“ نہیں بس نزدیک ہی ذرا گھوم پھر کر دیکھوں بحرین کیسا ہے”۔
“ زیادہ دور مت جانا” چچی نے تنبیہ کی ۔

چچا کا گھر ایک مارکیٹ کے اوپر تھا۔ نیچے ایک طویل راہداری کے دائیں بائیں دکانیں تھیں لیکن وہ غیر آباد تھیں۔ شاید ایک آدھ دکان کھلی تھی۔ یہ گلی ایک جانب مین سڑک پر کھلتی تھی اور دوسری جانب بحرین کی پرانی اور تنگ سی گلیاں تھیں۔ میں سڑک کی جانب نکل آیا۔ یہاں اسٹریٹ لائٹ نہیں تھی اور نیم تاریکی میں سائے ادھر سے ادھر آجا رہے تھے۔ ہلکی ہلکی بارش بلکہ پھوار برس رہی تھی۔ میں کھڑا آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا کہ میرے کانوں میں کچھ مانوس سے الفاظ سنائی دئیے۔

ایک مرد اور عورت کوکنی یا مراٹھی میں باتیں کرتے ہوئے گذر رہے تھے۔ پاکستان میں کبھی بازار میں کوکنی نہیں سنی تھی۔ کراچی میں تو لوگوں کو خبر بھی نہیں تھی کہ کوکنی کوئی قوم بھی ہوتی ہے۔ میں خوشگوار حیرت میں ڈوبا ہوا تھا کہ سامنے سے ایک ایسی چیز گذری کہ میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

یہ سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس ایک سردار جی تھے۔ میں نے اب تک کسی سکھ کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ جانے مجھے کیا ہوا، میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ میں اسے اوپر سے نیچے  دیکھتا چلا جارہا تھا۔ کچھ دور جاکر خیال آیا کہ میں گھر سے دور آگیا ہوں چنانچہ وہیں سے مڑ گیا۔

آج کی کہانی کچھ زیادہ لمبی ہوگئی۔ خیر جلدی کیا ہے۔ باقی پھر کبھی سہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply