دہشتگرد کا لہو بھی لال نکلا

یہ لہو کی خرابی ہے کہ جب جسم سے نکلتا ہے تو ایک ہی رنگ کا ہوتا ہے.
ہمیں ایک بار پھر خود کش حملوں کا سامنا ہے، ان حملوں کی اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہو گی کہ مظلوم اور ظالم کا لہو ایک ہی جگہ گرتا ہے اور دونوں کا رنگ بھی بالکل ایک جیسا ہوتا ہے.

دہشتگرد دِکھنے میں ایک انسان ہی تھا.
ہاں وہ آیا، اس نے اپنے تن سے بارود باندھا ہوا تھا، وہ پھٹ گیا اور راکھ ہوتے ہوتے کئی چراغ بھی گُل کر گیا. ہم اس سے نفرت کرتے ہیں اور ہماری نفرت بالکل فطری بھی ہے اور جائز بھی ہے کہ اس نے معصوموں کی مسکراہٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے.
لیکن
اک نظر ادھر بھی ہو کہ خود حرماں نصیبی کی معراج پر کھڑا حملہ آور بھی تو ایک انسان ہی تھا. اس کے بدن سے بھی لال رنگ ہی ٹپکا تھا.. اماوس ایسی کسی تاریک گھڑی میں اس کا مقدر اسے اس راہ پہ لے آیا جس کے آخر میں خود اس کے لئے رسوائیاں اور دوسروں کے لئے تباہیاں موجود تھیں.

کیا وہ ہمیشہ سے قابل نفرت تھا؟ یا وہ اس زمانے کا ایک معصوم اور سادہ لوح انسان تھا جسے بھیڑیوں نے استعمال کیا؟

آج اس فکر کو سامنے لانے کی ضرورت ہے جو اک انسان کو ایسی واہیات حرکت پر مجبور کر دیتا ہے اور سماج میں اس قدر قابل نفرت بنا دیتا ہے. جاننا چاہیے کہ وہ کونسا جذبہ ہے جو انسان کو اُس کی حیات سے بےنیاز کر دیتا ہے. وہ کیا فلسفہ ہے جو انسان کو اتنا دلیر بنا دیتا ہے. موت سے ہر انسان، جانور، وحشی، پرندے اور درندے تک ڈرتے ہیں پھر یہ کونسا انجکشن ہے جو انسان کو اس خوف سے نجات دلا دیتا ہے. تاریخ شاہد ہے کہ کون سے اور کس قسم کے نظریات انسان سے یہ سب کچھ کروانے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں.

کیا صلیبی نائٹس کو ہمیشگی کی زندگی کا لالچ دے کر دلیر نہیں بنایا گیا تھا؟ کیا وہ بے جگری سے نہیں لڑا کرتے تھے؟ کیا الموط کے قلعے میں اپنے دور کی طاقتور ترین فوج “حشاشین” نہیں رکھی گئی؟ دماغوں کو قابو کرنے اور اپنی ہر جائز و ناجائز بات منوانے کے بہت سے طریقے استعمال کئے گئے ہیں. سب سے آسان طریقہ یہ رہا ہے کہ انسان کو مقصد حیات کے جعلی “بہکاوے” میں پھنسا لیا جائے پھر اسے چند سالہ دنیاوی زندگی کے بدلے میں ابدی اور لامتناہی حیات آفر کر دی جائے. پھر کون بےوقوف ہو گا جو ایسی شاندار آفر ٹھکرائے گا!!! یہی قاعدہ حسن بن صباح نے، عیسائیوں کے پوپ نے اور مسلم سپہ سالاروں نے اپنایا. تاریخ میں ایسے واقعات لکھے ہوئے ہیں جب مسلم فوج جنگ میں پسپا ہونے لگتی تو کوئی شہسوار اپنے ساتھیوں سے موت پر بیعت کر لیتا تھا. اور وعدہ لیتا تھا کہ میدان سے زندہ واپس نہیں آنا ہے. اس سے ان میں دلیری پیدا ہوتی اور جنگ کا نقشہ ہی بدل جاتا.

تڑپتے ہوئے بیمار جسم کو چھوڑ کر دھڑکتی نبض ہر ہاتھ رکھیں. اصل بیماری ڈھونڈیں، معلوم کریں کہ یہ موجودہ خودکش حملے کرنے کے لئے نفسیاتی قوت کہاں سے آتی ہے! اک حملہ آور کو آخر حاصل کیا ہوتا ہے! اسے ممکنہ طور پر کیا پٹی پڑھائی گئی ہوتی ہے. خوش کش حملہ آوروں کی تعداد کم نہیں ہے ایک کے پیچھے دوسرا موجود ہے جہاں تک میرا مطالعہ اور مشاہدہ ہے صرف مذہب اور انقلابی نظریہ ہی انسان میں ایسی جرآت پیدا کر سکتا ہے. مذہب اخروی زندگی کو بنیاد بنا کر اور دنیاوی زندگی کو حقیر کہہ کر خود کشی کے لئے زہن سازی کر سکتا ہے اور انقلابی نظریات ظلم کے خلاف احتجاج کے لئے اور کئے گئے استحصال کے انتقام کے لئے ایسی دلیری پیدا کر سکتے ہیں.

زندگی سے پیار کرنے والا بہت بزدل ہوتا ہے اور ہمیشہ موت سے خوفزدہ رہتا ہے. جبکہ دنیا کو کمتر و حقیر جاننے کے بعد ایسی بہت سی کاروائیاں کچھ مشکل نہیں لگتیں. ہمارے دیس کا معاملہ یہ ہے یہاں فی الحال ایسا کوئی انقلابی نظریہ موجود نہیں جو اس انداز سے خودکش حملے کروا سکے. دشمن ملکوں کی سازشوں والی تھیوری بھی قابل غور ہے لیکن بات وہی آتی ہے کہ اگر ایسا ہو تب بھی فرد کو خودکش حملے کے لئے تیار کرنے کے لئے کوئی نظریہ چاہیے. فرض کیجئے اگر دشمن ملک مقامی لوگوں کو، مقامی مذہب استعمال کر کے، مقامی لوگوں کے خلاف ہی لاکھڑا کرتا ہے تو کیا یہ کچھ مضحکہ خیز بات نہیں!

ایسی کاروائیاں کرنے والوں کو فکری خوراک ہمارے تعلیمی اداروں سے ہی ملی ہے. ہمیں مان لینا چاہئے کہ جو لٹریچر کبھی ہماری ضرورت ہوتا تھا اب ہمارے سامنے کھڑا ہو کر ہمارا منہ چڑا رہا ہے. اس لٹریچر کو طول و عرض میں ہم نے ہی پھیلایا ہے. خود کش حملہ آور کا سر ہمارے کسی کام کا نہیں ہے ہماری ضرورت تو وہ سر ہیں جو اس فکر کو بنیادیں فراہم کرتے ہیں. ہماری تربیت آج بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم دنیا کو زیرو سے ضرب دیں. یہاں سارا زور آخرت پر دینا اعلی اخلاقی صفت سمجھی جاتی ہے. جہاں بنیادی تربیت ہی ایسی زرخیز ہو وہاں خودکش حملہ آور اگنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں.

اس حملہ آور کا سوچ کر بھی دل خون روتا ہے کہ اس ابن آدم کو کیسے بہکایا گیا ہو گا. کیسی چاردیواریوں میں اس کی فکری پرورش کی گئی ہو گی. اسے کیسے منظر دکھائے گئے ہونگے کیسی زہن سازی کی گئی ہو گی. وہ زات جسے عالمین کا رب کہا جاتا ہے اسے کیا بنا کر پیش کیا جاتا ہو گا اس سے کیسے کیسے احکام منسوب کئے جاتے ہونگے…. خودکش حملہ آور پر کیسے اساتذہ مقرر ہونگے کتنے اس کے ہم جماعت رہے ہونگے ان ہم جماعتوں نے اس دھماکے کی خبر سن کر کیسے تکبیر کی صدائیں بلند کی ہونگی. ایک صاحب نے یہ بھی فرما دیا ہو گا کہ “ثابت ہوا کہ ہم مومنین کا ایک ایک سپاہی کفار کے سو افراد پر بھاری ہوتا ہے” ..

Advertisements
julia rana solicitors london

ساکنان عرش اعظم بھی دیکھتے ہونگے. محسن انسانیت کو بھی خبر پہنچتی ہو گی کہ کیسے محبت کی مٹی سے نفرت کے مجسمے بنائے جا چکے ہیں.

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply