آ زاد نظم کا ن م راشد اور آزادی فکر۔۔رابعہ احسن

 زندگی کی تیز رفتاریوں میں جہاں سیاسیات، ابلاغیات اور معاشیات کے ہنگاموں نے روز و شب کے چکروں میں الجھا کر ہماری ذہنی اور جسمانی ایکٹیویٹی کو جکڑ کے رکھ دیا ہے ہماری سوچیں محض مسائل اور ان کے ممکنہ حل میں پھنسے رہتے ہیں۔ذہنی پسماندگی وہ بیماری ہے جو سب کچھ اتنا ایڈوانس ہوجانے کے باوجود  دور حاضر میں تیزی سے پھیل رہی ہے اس ذہنی پسماندگی کا نقصان یہ ہے کہ معاشرے سے مثبت سوچ اور مثبت طرز زندگی کا فقدان تیزی سے بحران اقدار میں بدلتا جارہا ہے ۔انسانی اقدار کی پاسداری معاشرے کی بقا اور سلامتی کا انتہائی ابتدائی اصول ہے جو دن بہ دن معدوم ہوتا جارہا ہے ہمارے اندر سے برداشت اور رواداری ختم ہوتی جارہی ہے بس افراتفری ،مسائل اور اس سب کے نتیجے میں پھیلتے ہوئے جھوٹے فرار، انٹرنیٹ سرفنگ جس کی بہت سی اقسام ہیں جو بہت تیزی سے چھوٹوں اور بڑوں سب میں مقبول ہورہی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم پرنٹ میڈیا سے دور ہوتے جارہے ہیں مطالعے کا شوق، کتابوں کی تشنگی مٹتی چلی جارہی ہے تشنگی بہرحال ادھر ہی قائم ہے اور پورے زور شور سے لیکن وہ جو کتابوں کا جادو ہوتا تھا  وہ مٹتا  جا رہا  ہے  ہماری  جنریشن جو کتاب ختم کئے بنا سونہیں پاتی تھی اب بس سوشل میڈیا کے بے تکے، بے ڈھنگے سٹیٹس پڑھ پڑھ کے دل جلاتی رہتی ہے تو ہمارے بعد آ نے والی نسلوں کا کتاب سے تعلق کتنا مضبوط ہوگا اک روز افزوں بڑھتا ہوا لمحئہ فکریہ ہے
کتابوں کا بھی جادو ہے اور جو برحق بھی ہے مگر صرف مطالعہ کرنے والوں کے لیے اور جب اس جادو میں کھو جائیں تو بہت سے نام ذہنی افق پر دمکتے ہیں جن کا لکھا کسی آ یت کی طرح اترتا ہے تو حدیث کی طرح د ل میں مہکنے لگتی ہے ایسے جادوئی ناموں کی فہرست کا کوئی انت نہیں۔ عمر کے مختلف ادوار میں بہت سے لکھنے والے ہماری سوچ پر اثرانداز ہوتے ہیں ان کی فکر، اسلوب اور مضامین زندگی کو ایک خاص انداز میں ڈھالنے کے لیے  معاون ثابت ہوتے ہیں۔
بہت سے  ایسے  ہی  ناموں میں ایک نام ن م راشد کا ہے جنھوں نے آزاد نظم کو فکری اور تکنیکی آزادی کے عروج پہ لاکھڑا کردیا ہے۔ڈاکٹرآفتاب احمد ”ن ۔ م ۔ راشدشاعر او ر شخص“ میں فرماتے ہیں کہ،
” راشد شاعر نہیں ، لفظوں کے مجسمہ ساز ہیں ۔ و ہ نظمیں نہیں کہتے ، سانچے میں ڈھلے ہوئے مجسّمے تیار کرتے ہیں۔“
ن۔ م راشد عمر بھر اپنی  تہذیب ، ماضی اور روایات و اقدار کی پرُ زور نفی کرتے رہے لیکن اس کے باوجود ماضی کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکے۔
راشد کے تہذیبی لاشعور میں نشاطیہ رنگ نمایاں ہے۔ان کی شاعری میں تہران ، بغداد اور وسطی ایشیاءکے شہروں کی جمالیاتی قدروں کا ایک پر نشاط منظر نامہ بنتا ہے۔ میراجی کے حافظے میں جنوبی ایشیاءکے سرچشمے  ملتے ہیں جبکہ راشد کے ہاں عرب ، عجم ، مشرق وسطی ٰ کے شہروں ، پہاڑوں اور دریاؤں  کا ذکر ملتا ہے۔ ”حسن کوزہ گر“ ”اندھا کباڑی“ ”زندگی اِک پیرہ زن“ کی علامیتں اور کرداروں سے یہی فضا ملتی ہے۔جہاں زاد ، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف
کی دکان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں و ہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں
نوسال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
اور حسن کوزہ گر راشد کی وہ طویل نظم جس میں راشد جھونپڑی میں رہنے والے کوزہ گر کی سوچ کے آ فاق کھولتا ہے و ہ پڑھنے والا خود کو بغداد کی گلیوں میں بوڑھے عطار یوسف کی گلیوں کے گرد گھومتا ہوا محسوس کرتا ہے کہیں بغداد کی گلیوں کا پراسرار حسن تو کہیں غریب کوزہ گر جس کے کوزے تک بول اٹھتے ہیں”حسن کوزہ گر ہم کہاں ہیں” راشد سے پہلے اردو شاعری ردیف اور قافیے کی بندشوں میں بری طرح جکڑی ہوئی تھی میراجی اور ن م راشد نے آ زاد نظم کو اک نیا آ ہنگ، نئی آزادی دی جس کا مذاق بھی اڑایا گیا لیکن اس کے باوجود راشد نے آزاد نظم کو پختگی اور تنوع کے جس رنگ سے متعارف کروایا وہ قابل رشک تھا نقادوں نے ان کی نظموں پر ابہام کا الزام بھی لگایا مریضانہ فراریت، شکست خوردہ ذہنیت اور غیر سماجی رویوں کی عکاسی ان کی نظموں میں بہت نمایاں رہی راشد نے قاری کو عام سطح سے اٹھا کر سوچ کی گہرائیوں، بھول بھلیوں میں لاکھڑا کردیا
نذر محمد راشد 1910 میں پیدا ہوئےابتدا میں علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے پیروکار رہے ان کے مجموعہ کلام میں ماوا، لا،مساوی انسان، ایران میں اجنبی، گمان کا ممکن شامل ہیں۔ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔
راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔
راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔  راشد کی ابتدائی شاعری جو ”ماورائی “ میں موجود ہے اس پر ایک قنوطی رنگ چھایا ہوا ہے۔ جو کسی نہ کسی حد تک آخر تک موجود ہے ۔ شاعر کو زندگی میں حسن اور دلکشی نظر نہیں آتی ۔ زندگی سے بےزاری اور بے اطمینانی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی ایک زہر بھرا جام ہے۔
؎الہٰی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں ، جاہلوں ، مردوں کی بیماروں کی دینا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے۔
ماوراءمیں راشد سکون کی تلاش میں ہے۔ ”خواب کی بستی“ میں وہ خوابوں میں پناہ لینا چاہتے ہیں ۔ نظم ”رخصت“ میں وہ مناظر فطرت میں سکون ڈھونڈتے ہیں ۔ انہیں روحانی محبت میں سکون نہیں ملتا ۔ لہٰذا ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جسمانی محبت کی طرف چلا جاتا ہے۔نظم”مکافات “ میں ملاحظہ کیجئے،؎اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا
حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا
گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟

راشد کا انتقال 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، راشد کی انگریز بیگم شیلا اور ساقی فاروقی جب کچھ لوگ عبداللہ حسین کا ذکر بھی کرتے ہیں۔۔ ساقی لکھتے ہیں کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے۔ ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے، اس باعث انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کے بجائے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر، چتا جلانے کی وصیت خود کی تھی

 راشد کے ساتھ آ زاد نظم کے مبہم اور پراسرار دور کا اختتام ہوا جو آہنگ اور زاویہ حسن اس کی نظموں میں ملتا ہے اس کی مماثلت شاذ ہی کہیں ملتی ہو۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply