لعل شہباز قلندر کی درگاہ میں خود کش دھماکہ

لعل شہباز قلندر کی درگاہ میں خود کش دھماکہ
طاہر یاسین طاہر
برصغیر کے معروف روحانی بزرگ اور قلندر پاک حضرت عثمان مروندی المعروف سخی لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر جمعرات کو مغرب کے وقت اس وقت خود کش دھماکہ ہوا جب زائرین مغرب کی دھمال ڈال کر دعا مانگ رہے تھے۔اس سے دو دن پہلے پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر خود کش حملے کیا تھا جبکہ پشاور اور بلوچستان کے علاقے آواران میں بھی دہشت گردی کے نتیجے میں پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت کئی افراد شہید ہو چکے ہیں۔صوبہ سندھ میں سیہون کے مقام پر صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں ہونے والے خود کش دھماکے میں ابھی تک کی اطلعات کے مطابق 76 افراد شہید اور 250 سے زائدزخمی ہوئے ہیں۔ بیشتر زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس حادثے کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ زخمیوں کے لیے ڈھنگ کا کوئی ہسپتال تک نہیں،اور نہ ہی زخمیوں کی منتقلی کے لیئے کوئی ایمبولینس سروس حادثے کے وقت موجود تھی۔ حالانکہ اتنے بڑے بزرگ کی درگاہ،جہاں ہمہ وقت ہزاروں زائرین موجود رہتے ہیں، کسی بھی حادثے سے نمٹنے کے لیے چند ایمبولینسسز کا موجود ہونا ضروری ہے۔نیز قریب ترین ڈھنگ کا سرکاری ہسپتال بھی اہم ضرورت ہے۔مگر زخمیوں کو کراچی اور حیدر آباد شفٹ کیا جاتا رہا جبکہ ہسپتالوں میں جگہ بھی کم پڑ گئی تھی۔
اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔یہ دھماکہ جمعرات کی شام درگاہ کے اندرونی حصے میں اس وقت ہوا جب وہاں زائرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔اے ایس پی سیہون کے مطابق حملہ آور سنہری دروازے سے مزار کے اندر داخل ہوا اور دھمال کے موقعے پر خود کو اڑا لیا۔دھماکے کے فوراً بعد امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں اور صوبے کے دیگر شہروں سے ایمبولینسز کو سیہون روانہ کر دیا گیا ہے۔سیہون کے ہسپتال میں موجود دادو کے ایس ایس پی شبیر سیٹھار کے مطابق شہید ہونے والوں میں متعدد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی توجہ زخمیوں کے لیے فوری طبی امداد ہے۔ ایک نجی ٹیلی وژن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس ہیلی کاپٹر نہیں ہیں اس لیے فوج سے ہیلی کاپٹرز کی فراہمی کے لیے بات کی ہے، تا کہ زخمیوں اور لاشوں کو درگاہ سے منتقل کیا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مطابق ان کے پاس رات میں پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹر نہیں ہیں اس لیے زخمیوں کی منتقلی کیلئے فوجی حکام سے ہیلی کاپٹر مانگے ہیں، جبکہ حکومت سندھ کے ہیلی کاپٹرز صبح میں سہون پہنچ جائیں گے۔‘آئی ایس پی آر کے مطابق ’دہشت گردی کے حالیہ واقعات افغانستان سے کیے جارہے ہیں، دہشت گردانہ کارروائیاں پاکستان مخالف غیر ملکی طاقتوں کی ایماء پر کی جارہی ہیں، جبکہ ان پاکستان مخالف قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ’عوام صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے، کسی کو عوام کی جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاک فوج قوم کے ساتھ کھڑی ہے اور سیکیورٹی فورسز غیر ملکی طاقتوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔یاد رہے کہ درگاہ لعل شہباز قلندر میں جمعرات کے روز دھمال ڈالی جاتی ہے اور زائرین کی بڑی تعداد مزار پر حاضری دیتی ہے۔نیز فوری طور پاک افغان طورخم بارڈر کو بھی تا حکم ثانی بند کر دیا گیا ہے۔اس سے قبل سیکرٹری خارجہ اور امریکہ کے لیے نامزد سفیر اعزاز چوھدری نے ایک سیمینار سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ داعش افغانستان سے پاکستان میں منتقل ہو سکتی ہے۔
یہ امر حیرت افروز ہے کہ دہشت گردوں نے منظم ہو کر پانچ دنوں میں ملک کے بڑے شہروں میں سات کارروائیاں کی ہیں۔ہمیں اس امر میں بھی کلام نہیں کہ دشمن ملک کی ایجنسیاں پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔لیکن بہر حال جو ذمہ داری بنتی ہے وہ ہمارے سیکیورٹی اداروں کی ہی بنتی ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر آخری حدود تک جائیں۔ آرمی چیف نے اگرچہ سخت بیان جاری کیا ہے کہ اب کسی سے کوئی رعایت نہیں ہو گی اور خون کے آخری قطرے تک کا حساب لیں گے۔امید ہے پاک فوج ضرب عضب میں مزید تیزی لائے گی اور اس تیزی کا اہم عنصر دہشت گردوں کے ان سہولت کاروں کو پکڑ کر عبرت کا نشان بنانا ہے جو شہروں میں بیٹھے دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد سے دہشت گرد تنظیم داعش کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فورسز ان آشکار قوتوں پر بھی ہاتھ ڈالیں جو اپنے تئیں داعش کی مدد ایک نام نہاد خلافت کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ پاکستانی عوام کو اپنی فورسز پہ یقین ہے۔ انشا اللہ داعش پاکستان مٰں قدم نہٰں جما سکے گی کیونکہ پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ محدودے چند دہشت گردوں کے سہولت کار بھی انشا اللہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply