کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا جلا۔۔حاجی زاہد حسین

2018کی آمد آمد ہے۔ الیکشن  کا بگل بجنے کو ہے۔ سیاست کا بازار گرم ہے۔ سیاسی جماعتیں الیکشن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جلسے جلوسوں کا میدان کارزار آئے روز کبھی کہیں سجتا ہے اور کبھی کہیں۔ گزشتہ دو سال سے اپوزیشن نے برسر اقتدار حکمرانوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ موضوع سخن تعمیر و ترقی نہیں اور نہ ہی تعلیم و ہیلتھ۔ بس پانامہ پانامہ اور کرپشن ہے معیشت کا پہیہ جام ہے۔ عام آدمی پریشان اور ان سب سے بیزار ہے۔ بیرونی دشمن موقع کی تلاش میں ہے اور داخلی فسادی دہشت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ آئے روز گرتے ہیں لاشے بچوں بوڑھوں کے اور ہمارے کڑیل فوجی جوانوں کے ،ایسے میں آئے روز کے قصے، نواز شریف کھا گیا شہباز کھا گیا۔ زرداری کھا گیا۔ پہلے جنہوں نے کھائے تھے ان سے تو کچھ وصول نہ ہوا۔ اب کون ان کا لوٹا پیسہ واپس لائے گا۔ ککھ پتی سے ارب پتی بننے والوں کا احتساب نہ ہوا۔ جو اب خاندانی ارب پتی شریف خاندان سے وصول ہونا ہے۔ زرداری کے چھ ارب ڈالر واپس نہ آئے۔ جو نواز شریف کے چار چھ فلیٹوں کی رقم واپس آنی ہے ہماری احتساب عدالتیں اعلی عدالتیں آئے روز ان کے سیاسی جھگڑے نمٹانے میں لگی ہوئی ہیں۔

دوہری شہریت کے جھگڑے اقامے کے جھگڑے۔ بیرون ملک سرما یہ کاری کے جھگڑے ،ان جھگڑوں نے اپو زیشن کو سڑکوں پر اور حکمرانوں کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کر دیا ہے۔ تھوڑی بہت جو تعمیر و ترقی ہو رہی تھی  یا ہونی تھی اس پر جمود طاری ہے۔ اوپر سے دھرنوں کا عذاب سڑکوں پہ دھرنے، چوکوں پے دھرنے، ہسپتالوں کالجوں میں دھرنے اور تو اور اب مذہبی جماعتیں بھی اور خانقاہیں گدیاں بھی اس پٹڑی پر چل پڑی ہیں۔ تانگہ پارٹیاں بھی اور بر آمد شدہ مذہبی سکالروں کا بھی گالی گلوچ بدتمیزی بد تہذیبی کا رواج سر عام ہے۔ ایسے میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر جمع ہونا، خود کو تیسری پوزیشن میں لا کھڑا کر دے گا۔ کپتان کی پی ٹی آئی آمدہ الیکشن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لا سکے گی۔ وہی پرانے کھلاڑی ہی نئی مسند اقتدار پر براجمان ہوں گے۔ پنجاب میں وہی نون لیگ اور سندھ میں پی پی پی ایم کیو ایم ہی اپنے گلے شکوے نمٹاکر اقتدار سنبھال لیں گے۔ بلوچستان میں ایم ایم اے جمعیت مقامی جماعتوں سے مل کر حکومت بنالے گی۔

عجب تو یہ لگتا ہے کہ پختونخوا  میں بھی پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے حکومت جاتی نظر آرہی ہے۔ وہاں بھی ایم ایم اے ،جمعیت ،اے این پی اور نون لیگ کا اتحاد حکومت سنبھالنے کی پوزیشن میں ہو گا۔ اور پھر مرکز میں بھی دونوں پرانے کھلاڑی اور اتحادی کچھ لو  کچھ دو کی صورت میں تخت طاؤس پر براجمان ہو جائیں گے اور پھر سے کپتان کے ہاتھوں  میں صرف پانامہ کی احتجاجی سیاست ہی رہ جائے گی اس کی چند بڑی وجوہات میں ایک کپتان کی غیر مستقل مزاجی ہے۔ اور نمبردو ان کے پاس  اچھی ٹیم کا فقدان بھی ہے۔ جبکہ دونوں بڑی جماعتیں   قابل اور ماہرانہ ٹیمیں رکھتی  ہیں۔

قارئین ملک کی ایک بڑی خاموش اکثریت اگر نواز شریف کو متکبر و خودپرست سمجھتی ہے تو عمران خان کو بھی وہ ضدی اور ہٹ دھرم   جانتی ہے ۔ آمدہ الیکشن نون لیگ کے گزشتہ ادوار میں تکمیل کردہ ملک میں چند بڑے بڑے پروجیکٹ اور جاری کردہ دیر پا منصوبے بھی آنے والی حکومت سنبھالنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بالخصوص آنے والی حکومت کی قیادت شہباز شریف کے حوالے کرنے کا قبل ازوقت فیصلہ بھی نون لیگ کے اقتدار میں آنے کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ اس لئے کہ شہباز شریف عوام الناس کی نظر میں قابلیت محنت صاف گوئی اور دیانت میں ایک اچھی شہرت رکھتے ہیں۔  پی ٹی آئی کا گالم گلوچ اور ناچ گانے کا کلچر بھی تا حال ہمارے معاشرے میں قبولیت کا شرف حاصل نہیں کر پایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ وہ چند حقائق ہیں جن کی موجودگی میں متوقع آنے والے الیکشن کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکتے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ خصوصاً  نوجوان طبقہ پانچ عشروں سے باریاں کرنے والے لیڈروں سیاست دانوں اور پارٹیوں سے جان چھڑانے اور نئی قیادت کو آگے لانے کی جدوجہد میں مصروف کار ہے۔ مگر ہماری اس نام نہاد جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ موروثی جمہوریت کی موجودگی میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں کسی تیسری درجے کی قیادت لانا ناممکنات  میں سے  نظر آتا  ہے۔ ہاں البتہ اس کے لئے اگر موجودہ پارلیمانی نظام سمیٹ کر صدارتی نظام طرز حکومت قائم ہو اور پھر ایک طرف نواز شریف اور زرداری عوام کی عدالت میں آئیں اور دوسری طرف عمران خان یا کوئی زید و بکر، عوامی آزادانہ حق رائے دہی سے صدارت کی کرسی سنبھال لیں۔ ملک بھر سے اپنی اپنی ٹیم بنائیں تب جا کر ملکی سطح پر تبدیلی اور سرمایہ داروں وڈیروں جاگیرداروں سے چھٹکارا ممکن ہو سکے گا۔ ورنہ کپتان کی یہ ساری محنت ریاضت دھرنے احتجاجی سیاست وہ بھی موجودہ لوٹوں بے ضمیر وں کی موجودگی میں ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے
کھیر پکائی تھی جتن سے چرخا دیا جلا، آئی کتیا کھا گئی کھیر تو بیٹھی ڈھول بجا!

Facebook Comments

hajizahid hussain
columnist

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply