تتھاگت نظم(7)…….. واجب رشتہ

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند

تتھاگت نظم۔۔۔7
واجب رشتہ

اور پھر ایسے ہوا آنند جب لوٹا نگر سے
تو بہت غمگین تھا، بولا، ’’ تتھا گت
اس جنم کا کوئی رشتہ
ٹُو ٹنے کے بعد پھر جُڑ جائے، تو کیا۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کھُل کے پوچھو، گیان جگیاسُو، پہیلی مت بُجھاؤ‘‘ بُدھّ بولے

’’واسنا بالکل نہیں تھی، اے تتھاگت
صرف اک رشتہ تھا، کچھ کچھ پیار کا، کچھ دوستی کا
ایک کنیا تھا جسے میں چاہتا تھا
آج سے کچھ سال پہلے
آج جب بازار میں دیکھا تو اُس سے
بات بھی کی۔ ۔ ۔ ۔ واسنا بالکل نہیں ہے، پیر و مرشد!
چاہتا ہوں جب تلک ڈیرہ یہاں ہے، اس نگر میں
اس سے ملتا بھی رہوں میں !
واسنا بالکل نہیں ہے، صرف اک خواہش ۔ ۔
لڑکپن کے دنوں کی یاد سی ہے۔ ۔ ‘‘

بُدھّ کے ہونٹوں پہ شاید مسکراہٹ
یا کسی بھولے ہوئے جذبے کا اک سایہ سا آیا
ہچکچایا، مٹ گیا، بولے تتھاگت
’’ہر نیا رشتہ نیا بندھن ہے، بھکشو
ہر پرانا آپسی سمبندھ رشتوں کی کڑی ہے
جوڑنے سے اور بھی مضبوط ہر جاتی ہیں کڑیاں ‘‘

’’میں نہیں سمجھا، تتھاگت۔ ۔ ۔ ‘‘

’’تم پُرانی گرد پاؤں سے جھٹک کر
سَنگھ میں شامل ہوئے تھے
یہ پُرانی گرد اُن را ہوں پہ گذرے واقعوں کی
داستاں دہراتی پھرتی ہے، جنہیں تم
چھوڑ کر آگے نکل آئے ہو بھکشو
بیتے کل کی گرد اُڑ کر
پھر تمہارے پاؤں چھونے لگ گئی ہے، تو جھٹک دو!
ٹال دو۔ ۔ ۔ بچ کر نکل جاؤ کہ مٹّی میں پکڑنے کی بہت شکتی ہے
دیکھو, سارے رشتے
کچھ نئے جو جھولی پھیلائے کھڑے ہیں
اور پرانے جو تعاقب کر رہے ہیں
بھکشوؤں کے واسطے ممنوع ہیں۔ ۔ ۔ تم جانتے ہو‘‘

’’سارے رشتے، پیر و مرشد؟‘‘

ہاں، فقط بھکشا کا رشتہ
ایک پل کا
دینے والے ہاتھ اور کشکول کا ہی واجبی ہے ‘‘
٭٭٭

Advertisements
julia rana solicitors london

گیان جگیاسو : بمعنی علم کا متلاشی
واسنا: بمعنی 'جنسی ہوس'۔
سنگھ : بمعنی بدھ مت کی تنظیم۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply