دیکھا دیکھی کہیں دل مت دینا

دیکھا دیکھی کہیں دل مت دینا
تحریر : لالہءصحرائی

[ ویلینٹائین ڈے سپیشل ]

یہ دنیا محبت کی جس قدر محتاج ہے اسی قدر اس کی دشمن بھی ہے اس بات کا صحیح اندازہ صرف فروری میں ہوتا ہے جہاں سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ ٹرینڈ سیٹرز کا کردار ادا کرتے ہیں اور ناصحین کا طبقہ لٹھ اٹھائے اسے روکنے کیلئے سامنے آجاتا ہے۔
بعض چیزیں جن کا تعلق انسانی رویے کے حُسن اور جمالیاتی ذوق کیساتھ ہو وہ معاشرے میں ہونی بھی چاہئیں اور نہیں بھی ہونی چاہئیں، جس طرح جنسی تعلقات صرف ازدواجی بندھن کے اندر جائز ہیں اسی طرح دیگر انسانی رویے اور جمالیاتی ذوق بھی کسی ضابطے کے پابند ہوتے ہیں، محبت ایک جمالیاتی ذوق اور انسانی فطرت کا جزو لاینفک ہے لیکن عامۃالناس کیلئے یہ سمجھنا بڑی حد تک مشکل ہے کہ کہاں تک یہ ذوق فطرت میں شمار ہوتا ہے اور کہاں سے یہ شہوانیت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ تنہائی انسان کیلئے سُم قاتل ہے، انسان کسی نہ کسی کیساتھ ایک چاہت کے رشتے میں جڑنا چاہتا ہے لیکن اس خواہش میں کچھ حدود اور توازن کا ہونا بہت ضروری ہے، جرمن فلاسفر آرتھر شوپنہار کے نزدیک محبت کا شدید جذبہ بھی ایک سُم قاتل ہی ہے، جب یہ ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کے سامنے ہر چیز ہیچ ہو جاتی ہے حتٰی کہ زندگی کی اہمیت بھی ختم ہو کے رہ جاتی ہے، پھر محبت کی راہ میں انسان کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا، اس موقع پر اگر کوئی خلا پیدا ہو جائے تو محبت کا سفر زندگی کے اختتام پر ہی منتج ہوتا ہے۔

علمی دنیا میں شوپنہار کی منطق محبت کی سب سے زیادہ مایوس کن تعریف سمجھی جاتی ہے لیکن ہیر رانجھا سے شیخ ویلینٹائین تک اس قبیل کے قدیم و جدید کرداروں کی موجودگی میں اس منطق کو غلط قرار دینا آج تک ممکن نہیں ہو سکا، معاشرے میں ناخالص جذبوں، ناپختہ ذہنوں اور مادیت پسند رشتوں کو دیکھتے ہوئے ولیم۔بی۔ییئٹس نے بھی ایک تلخ نظم لکھی تھی “نیور گیوو آل دی ہارٹ” ایکدم دل نہیں دے دیا کرو، بیشتر لوگوں نے اسے بھی مایوس کن نظم قرار دیا تھا لیکن موجودہ دور کے رویوں تک یہ بھی ایک نپی تلی حقیقت پسند تخلیق ہی ثابت ہوئی ہے۔

غلطی ناصح، شوپنہار اور ییئٹس میں نہیں بلکہ اس سوچ میں ہے جو اپنی دلچسپی کی خاطر حقیقت سے فرار چاہتی ہے، ایسے سماج کو صرف شاعرانہ مبالغہ یا تعبیراتی مغالطہ آمیز نظریات ہی پسند آتے ہیں خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ہو، غالب اکثریت کے نزدیک رومانوی جذبہ صرف اتنا ہی ہے جس میں جنس مخالف کی جسمانی کشش یا اپنی جسمانی ضروریات کے پیش نظر کسی کو آئی۔لو۔یو کی سرگوشی سے اپنی طمانیت کیلئے ایک تعلق کے اندر قید کرنا مقصود ہوتا ہے لیکن قدیم و ماضی قریب کے فلسفیوں نے محبت کی چھ مختلف جہتیں بیان کی ہیں، ان چھ جذبوں سے موزوں تعلق رکھنے والا انسان ہی ایک متوازن اور مکمل شخصیت کہلاتا ہے جو اندھا دھند جنسی پارٹنر ڈھونڈنے کی بجائے ان جذبوں کو ان کی اصل جگہوں پر حسن اہتمام کیساتھ برتنے کا اہل ہو، حقیقی لوور کہلانے کا صحیح حقدار بھی وہی ہے۔

پہلا جذبہ فیلیا philia کہلاتا ہے جو مخلص اور گہری دوستی کا امین ہے۔
اس محبت کی خالص اور شفاف ترین شکل مخلوق کی خدا سے محبت، والدین اور بچوں کے درمیان پائی جانے والی محبت ہے جو stroge بھی کہلاتی ہے۔

یہ جذبہ بھائی بہنوں کے علاوہ دو مخلص دوستوں، کولیگز، بزنس پارٹنرز، کسٹمرز اور مرچنٹس کے درمیان بھی ہو سکتا ہے جس میں لوگ ایکدوسرے کی خوشیوں اور غموں میں برابر کے شریک سمجھے جائیں، اس جذبے کی بقا کیلئے پہلی شرط بے لوث محبت، ایکدوسرے کی معاونت اور وفاداری ہے۔

فیلیا اور سٹرگ میں فرق یہ ہے کہ جہاں دو ہم پلہ مخلص جذبہ رکھتے ہونگے وہ فیلیا۔لوو کہلائے گا اور جہاں پالنے والوں اور انحصار کرنیوالوں میں محبت ہو گی وہ سٹرگ۔لوو کہلاتی ہے۔

دوسرا جذبہ لُوڈس ludus کہلاتا ہے جو عارضی تعلقات کا نمائندہ ہے۔
لُوڈس۔لوو ایک عارضی شراکت داری کا نام ہے جس میں وقتی طور پر کسی کیساتھ پسندیدگی یا دوستی بنتی ہے لیکن اسے زندگی بھر جاری رکھنے کے کوئی عزائم نہیں ہوتے، اس کی مثال ہمارے کلاس فیلوز، روم میٹس، کولیگز اور ٹریولنگ میں ہمسفر وغیرہ ہیں، انسان ان کیساتھ شیئرنگ، کیئرنگ، سیرسپاٹا، فلم بینی، کھانا پینا سب کچھ کر لیتا ہے پھر ہوائے زمانہ کیساتھ سب کہیں نہ کہیں بکھر جاتے ہیں، ان کیساتھ نہ گہری دوستی ہوتی ہے نہ سطحی، نہ ایسی اجنبیت کہ دوبارہ کہیں مل جائیں تو پھر ویسی ہی محفل نہ جما سکیں، نہ ایسا قرب کہ ایکدوسرے کے بغیر رہ نہ سکیں، یہ ایک نارمل سا تعلق ہے جو بعض لوگوں کے درمیان گہری دوستی یا فیلیا میں بھی بدل جاتا ہے۔

تیسرا جذبہ پریگما Pragma کہلاتا ہے جو دیرپا محبت کا نمائیندہ ہے۔
پریگما کا مطلب ہے پروگمیٹک، پروگرامڈ یا تسلسل کیساتھ جاری رہنے والا عمل، یہ محبت عموماً شادی شدگان میں وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے جو تحمل، بردباری اور معاونت کی مرہون منت ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ہم سارا زور محبت ہونے “to fall in love” کیلئے صرف کرتے ہیں لیکن جب کسی سے محبت ہو جائے تو آگے ایک لفظ بھی پتا نہیں ہوتا کہ اب اس محبت کے ساتھ “stand in love” کیسے رہا جائے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ محبت قائم رکھنے کیلئے صرف وصول کرنا کافی نہیں بلکہ اسی قدر محبت لوٹانا بھی فرض ہو جاتا ہے، محبت لینے اور دینے میں جتنی بہتر نسبت قائم ہوگی اتنا ہی تعلق بھرپور اور مضبوط ہوگا، پریگما کا یہ اصول ہی مرد و زن کے درمیان طویل اور طمانیت بخش ازدواجی محبت کا امین ہے۔

چوتھا جذبہ آگیئپ Agape ہے جو ہر خاص و عام کیلئے محبت کا نمائندہ ہے۔
اسے لاطینی میں caritas کہتے ہیں جس میں سے لفظ چیریٹی اخذ کیا گیا ہے، یہ ایک آفاقی مہربانی یا جذبہ ترحم کی نشانی ہے جس میں انسانیت کے ناطے ہر فرد میں دوسروں کیلئے ہمدردی محسوس کی جا سکتی ہے، ارسطو نے کہا تھا “دوسروں کیلئے خیرخواہی کا جذبہ دراصل انسان کا اپنے ساتھ ہی بھلائی کا جذبہ ہے” نوع انسان عمومی طور پر انسانیت کا دم تو بھرتی ہے لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر انفرادی طور پہ انجان لوگوں کیلئے مروت کا جذبہ تیزی کیساتھ ختم ہوتا جارہا ہے۔

پانچواں جذبہ ایروز eros کہلاتا ہے جو جنسی رغبت کا نمائندہ ہے۔
یونانی میتھالوجی میں “ایروز” آفرینش کا دیوتا ہے جو صنف مخالف کیساتھ محبت کیلئے تحریک دیتا ہے لیکن بعد کے مفکروں نے اسے جھٹلا دیا، ان کے نزدیک ایروز سے متعلق کنسیپٹ محبت سے زیادہ جنسی تعلقات تک محدود ہے، یہ جذبہ کسی کو اپنانے اور تادم حیات اس کیساتھ زندگی گزارنے سے کسی حد تک عاری ہے، یہ ایک وقتی ابال یا شہوت پسندی پر مشتمل جذبہ ہے جو کسی کو دیکھ کر شدید محبت کا شکار بھی ہو جاتا ہے جسے “میڈلی۔ان۔لوو” ہونا بھی کہہ سکتے ہیں، ایروز کو رومن میتھالوجی میں کیوپڈ کہتے ہیں اور کیوپیڈیٹی ایک شہوانی جذبہ ہی کہلاتا ہے۔

چھٹا جذبہ فلؤشیا Philautia ہے جو خود پرستی کا نمائندہ ہے۔
خود پسندی، نفس پرستی، ذاتی نمود و نمائش اور نارسزازم واضع طور پر ایک منفی جذبہ خیال کیا جاتا ہے لیکن غرور و تکبر کی سطح سے نیچے نیچے ایک مناسب حد تک انسان کو اپنی حیثیت، شخصیت اور خوبیوں سے آگہی اور پیار ہونا چاہئے جبھی وہ دنیا میں اپنا آپ منوا سکتا ہے ورنہ اپنی خودی سے بے نیاز ہو کر محروم تمنا ہی رہ جاتا ہے۔

دیگر آرٹیکلز میں یہ ترتیب تھوڑی مختلف ہو سکتی ہے، میں نے اسے انسانی مراحل کے حساب سے ترتیب دیا ہے تاہم ان زمروں کی تفصیل میں کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ ایک فلسفی سی۔ایس۔لیوائس نے فیلیا کو سٹرگ کے نام سے لکھا ہے اور خدا کی محبت کو چوتھی قسم اگیئپ میں بیان کیا ہے۔

فلسفے کے مطابق مندرجہ بالا اقسام ایک تناسب کیساتھ ہر انسان میں موجود ہونی چاہئیں تاکہ وہ ایک متوازن شخصیت بن سکے، ان جذبات میں غیر متوازن افراد متلون مزاجی، خودپسندی، شہوت پرستی یا بے مروتی کے باعث ایک اچھا انسان نہیں بن سکتے۔

ہمارا موضوع چونکہ محبت ہے اس ضمن میں فلسفہ یہ کہتا ہے کہ ابتدائی عمر میں انسان پر صرف فیلیا۔لوو اور لوڈس۔لوو کا غلبہ ہوتا ہے، وہ بہن بھائی اور دوستوں کے دائرے میں تعلیم، کھیل اور تفریحات میں مگن رہتا ہے پھر اس کے شعور کی آنکھ کھلتی ہے، ایسے میں جسمانی تبدیلیاں اسے زندگی کے نئے زاویوں اور دائروں سے متعارف کرانے لگتی ہیں، سن بلوغت جب اسے محبت کے جسمانی اور شہوانی معنوں سے آشنا کرتی ہے تو پھر اسے راستہ یا رہنمائی میں سے ایک چیز لازمی درکار ہوتی ہے۔

انسان کو چہرہ دیا تو اسے دھونے کا سلیقہ بھی دیا ہے، بال دئے تو سنوارنے کا، شخصیت دی تو لباس پہننے کا اور پیٹ دیا ہے تو اسے بھرنے کا ڈھنگ بھی دیا ہے، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جب اس میں جنسی خواہشات انگڑائی لیں تو وہ خودبخود اسے نظرانداز کرے، اس موقع پر نوعمر افراد کو یہ گائیڈینس ملنی چاہئے کہ جنسی جذبات ایک مقصد حسنہ کے تحت دئے گئے ہیں جس پر نوع انسان کا ری۔پروڈکٹیو سسٹم انحصار کرتا ہے، اس دائرے میں قدم رکھنے سے پہلے آپ کو اس کے تقاضے نبھانے کے قابل ہونا چاہئے۔

شہوت پسندی کو محبت سے خارج نہیں کیا جا سکتا البتہ ضابطے کا پابند ضرور کیا جا سکتا ہے، ابتدائی بالغ زندگی میں انسان پر ایروز۔لوو کا غلبہ ہوتا ہے خواہ وہ گمراہ ہو یا ازدواجی زندگی کا پابند ہو، جائز دائرے میں اس کی مثال ہنی مون کا دور ہے جب عام دوستوں کے لوڈس۔لوو سے نکل کر طرفین ازدواجی بندھن میں ایکدوسرے کیساتھ ایروز۔لوو میں مگن ہو جاتے ہیں، آگیئپ اور پریگما کا دور اس کے بعد ہی شروع ہوتا ہے تاہم یہ ایک مسلم اصول ہے کہ ایک متوازن شخصیت ہی ایک اچھا ہمسفر یا soul mate ثابت ہو سکتا ہے جو ایروز۔لوو اور پریگما۔لوو میں متوازن اور دائرے کے اندر ہی رہے۔

یونانی فلسفے میں بھی اسے حیوانی اور روحانی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، حیوانی محبت سے مراد جنسی ضرورت ہے جس کی طلب ہمارے رویے پر اثر انداز ہو کر ہمیں صنف مخالف کی طرف راغب کرتی ہے جبکہ روحانی محبت انسان کو خدائی حقیقتوں سے بھی آشنا کرتی ہے، افلاطون کے مطابق محبت ایک پیہم سلسلہ ہے جس میں انسان کی بنیادی ضرورت یا حیوانی محبت ایک بہتر اور باشعور رویے میں ڈھلنے لگتی ہے جب اس کی گود میں قدرت کی طرف سے نئی ذمہ داریاں اترنا شروع ہوتی ہیں، یہ مراحل ایک طرف انسان کو خدا کے قریب کرتے ہیں تو دوسری طرف زوجین کو ایک اٹوٹ رشتے میں پروتے چلے جاتے ہیں، اسی بات کو سچی محبت کے طو پر ارسطو نے “two bodies and one soul” کہہ کر بیان کیا ہے، ہمارے ہاں اسی بات کو “یکجان دو قالب” کہا جاتا ہے جو ازدواجی رشتے کی معراج ہے۔

انسان بہرحال صنف مخالف سے مل کر ہی مکمل ہوتا ہے، محبت کی ان سب کیفیات کو جو ارسطو اور افلاطون نے بیان کیں یا جو ہمارے سامنے ہیں یہ سب ان ضابطوں کی محتاج ہیں جنہیں ہم اعلٰی انسانی اقدار کہتے ہیں ان میں مذہب، روحانیت، انسانی فطرت، سماجی اور اخلاقی اطوار سب شامل ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فینومینا کے راءمیٹیریل کو ان اقدار سے آگاہی دینے کی بجائے محبت کی دھوکہ منڈی میں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر معاشرتی بگاڑ کا گلہ نہ جانے ہم کس سے کرنا چاہتے ہیں…؟

جرمن فلاسفر آرتھر شوپنہار کے مطابق “محبت ایک دھوکہ ہے” بلکہ محبت ایک ایسا دھوکہ ہے کہ اس جیسا دھوکہ اور کوئی نہیں، اس کا محرک عموماً مرد ہے جسے یہ لگتا ہے کہ اپنا پیار پانے کیلئے اسے سب کچھ قربان کرنا چاہئے کیونکہ وہ پیار ہی اس کی تمام جذباتی ضروریات پوری کر سکتا ہے جو کوئی اور اس کی طرح پوری نہیں کر سکتا لیکن یہ بات ایک ذہنی مغالطے یا بصری دھوکے کے سوا کچھ نہیں، انسان اسے مقصد حیات سمجھ کے پیچھے لگتا ہے جبکہ اصل میں یہ ایک حیوانی اور جبلی رویہ ہے جس کی رو میں وہ غیرضروری طور پہ بہہ رہا ہوتا ہے، شوپنہار سے اس کی مزید تفصیل جاننے کی بجائے اگر کوئی دوسرا اس کی اجمالاً تصدیق کردے تو یہ بات قدرے زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔

امریکی سائیکالوجسٹ مورگن۔سکاٹ۔پیک کا کہنا ہے کہ کسی کے دام الفت میں گرفتار ہو جانا دراصل محبت نہیں بلکہ ایک وقتی جنسی جذبہ ہے، ایروز۔لوو ایک سنگین دھوکہ ہے کیونکہ یہ ایک بیالوجیکل عنصر ہے جو ہمارے جبلی رویئے کے تحت انسان کو صنف مخالف کی طرف جنسی کشش یا رغبت دلاتا ہے، یہ جذبہ بذات خود غلط نہیں کیونکہ اسی کی بدولت ہی افزائش نسل کا سلسلہ چلتا ہے اور یہی عنصر انسان کو ازدواجی دائرے میں بھی گھسیٹتا ہے لیکن اسے حقیقی محبت یا لوو۔ایٹ۔فرسٹ۔سائیٹ سمجھنا خودفریبی ہے کیونکہ اس اسٹیج پر یہ اپنی خام اور ناپختہ حالت میں صرف جنسی تحریک کی پشت پناہی سے وارد ہوتا ہے جبکہ پختہ محبت پریگما۔لوو کی شکل میں ہی سامنے آتی ہے جب انسان اپنی خانگی زندگی میں رچ بس جاتا ہے۔

دی۔روڈ، لیس۔ٹریولڈ میں سکاٹ۔پیک مزید کہتا ہے کہ یہ ایک سطحی سا احساس ہے، اسے محبت کی بجائے فیلنگ۔ان۔لوو کہنا چاہئے جبکہ اصل محبت فالنگ۔ان۔لوو ہے، مجھے تم سے محبت ہے اور میں تمہاری محبت کا اسیر ہو چکا ہوں ان دونوں جملوں کے معنی اور احساس میں بہت فرق ہے، فیلنگ۔ان۔لوو کسی بھی پرکشش چیز سے ہو سکتی ہے لیکن فالنگ۔ان۔لوو کی کیفیت صرف ایک ڈسپلن کے تحت ہی واقع ہوتی ہے، اس ڈسپلن کی طویل تشریح کرنے کی بجائے آپ اسے وہی سمجھ لیجئے جو ہم نے پریگما کی تعریف میں دیکھا ہے، مختصر یہ کہ جس طرح لڑکے والوں کو لڑکی یا انہیں لڑکا پسند آجاتا ہے اس خوشی کے موقع کو محبت کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس راستے میں یہ ایک پہلا خوشگوار سنگم ہے، یہ خوشی کا موقع طرفین میں کسی محبت کا باعث بنتا ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ وقت کرے گا اور وقت اپنا فیصلہ سنانے کیلئے ایک لمبہ عرصہ لے گا۔

شوپنہار بھی یہی کہنا چاہتا ہے کہ جسے آپ محبت سمجھتے ہیں یہ صرف ایک فیلنگ۔ان۔لوو، ایک خوشگوار لمحہ یا ایک ملاقاتی سنگم ہے جو کل کو اپنی تمامتر خوشگواری اور احساس محبت گنوا بھی سکتا ہے، اس لئے اسے محبت سمجھنا کسی دھوکے کے سوا کچھ نہیں جبکہ اصل محبت زندگی پر محیط ایک لانگ لاسٹنگ بانڈ ہے جو صرف پریگما کے اصول گیو۔اینڈ۔ٹیک یا لوو۔اینڈ۔گیٹ۔بیلووڈ کی مسلسل ریاضت سے فال۔ان۔لوو کی سطح پر پہنچتا ہے اور یہی اصل محبت ہے۔

سکاٹ پیک مزید لکھتا ہے کہ بحیثیت سائیکالوجسٹ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں لوگوں کو اپنی توانائیاں، مال اور وقت ایک ایسی محبت کیلئے ضائع کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جسے وہ ایک نامحکم اصول سے مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔

جو لوگ اپنے اندر صنف مخالف کی کشش دیکھ کر یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ محبت ہی سب کچھ ہے، محبت ہی عبادت ہے، محبت انسانیت ہے، محبت احترام آدمیت سکھاتی ہے، محبت انسان کا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہئے، ایسے لوگ محبت کے دیگر معصوم رنگوں اور اپنے مخصوص جذبے کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، ان کی مثال وہی ہے جیسے کوئی کیمیا کی بجائے سانڈے کے تیل کو ہر مرض کیلئے اکسیر و تریاق گرداننے لگے جو یقیناً ایک بے معنی راگ کے سوا کچھ بھی نہیں، جو محبت فاتح عالم کے درجے پر فائز ہے وہ صنف مخالف کی کشش خوردہ محبت یا ایروز۔لوو سے الگ باقی پانچ رنگوں پر مشتمل ہے، ان پانچ رنگوں سے آپ دنیا فتح کر سکتے ہیں اسلئے کہ زندگی بہت سارے ایوینٹس کا مجموعہ ہے جس میں بڑوں کیساتھ، بہن بھائیوں، دوستوں، بچوں اور اپنے ساتھ محبت کے پانچوں رخ ایمپلائے کرنے پڑتے ہیں جبکہ ایروز۔لوو صرف اپنی صنف مخالف کیساتھ تخلیہ کی حد تک نبھا سکتے ہیں، میاں بیوی کو ایروٹک۔رومانس کیلئے زمانے کی اجازت چاہئے نہ کسی نے انہیں روکا ہے، یہ شوروغل صرف مجرد لوگوں کی لوو۔فائینڈنگ۔کؤیسٹ ہے جسے محبت کے نام پہ اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتے ہیں، یہ اپنے جلو میں “محبت درد ہے، محبت زہر ہے، محبت آگ کا دریا ہے، محبت زخم ہے” جیسے بچھو بھی لئے پھرتی ہے جس سے آرتھر شوپنہار نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے نہایت بیدردی سے خبردار کر دیا ہے۔

شوپنہار نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ تنہائی جان لیوا ہوتی ہے اور اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ بچگانہ سوچ کا رومانس بھی ایک سطح پہ جا کے مزید تنہا کر جاتا ہے جو پھر جان لیوا ثابت ہوتا ہے، یہی کچھ سینٹ ویلینٹائین کیساتھ ہوا اور وہی کچھ کئی دیگر سینٹس کے ساتھ بھی ہوا جو ویلینٹائین کی اس روایت کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔

یہاں میں نے ان معاشروں کے اہل دانش کی گواہیاں پیش کی ہیں جنہیں علم و حکمت کا قابل تقلید منبع سمجھا جاتا ہے اور بڑی اچھی طرح سے یہ بات واضع ہو گئی ہے کہ تنہائی اور گمراہ کن محبتیں دونوں ہی نقصان دہ ہیں، درمیانی راستہ صرف اخلاقی راستہ ہے جو جنسی لذت کیلئے ازدواجی ذمہ داری اٹھانے کا بھی تقاضہ کرتا ہے لیکن سماجی طور پر ہم یہ پیغام پہنچانے میں سخت ناکام رہے ہیں کیونکہ جنسی معاملات پر بات کرنا جنسیت سکھانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس تعلیم کا مطلب فحاشی سکھانا قطعی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلوغت کی حدوں پر کھڑی نئی نسل کو ان کی حدودوقیود، اخلاقیات، سماجیات اور جنسی جذبے کے حقیقی تقاضوں سے خبردار کیا جائے تاکہ نوعمر لوگ گمراہی اور جنسی مسائل کا شکار ہونے کی بجائے خود کو ازدواجی ذمہ داری اٹھانے کے قابل بنانے کی کوشش کریں نہ کہ ویلینٹائین تلاش کرنے کی بے سود دوڑ میں شامل ہونے لگیں، یقین کیجئے کہ ڈنڈے اٹھا کے اس نظام کو پنپنے سے آپ روک نہیں سکتے بلکہ اس کا تدارک جنسی موضع کی اخلاقی تربیت سے ہی ممکن ہے اس کیلئے ایسی تعلیم کا انتظام کرنا پڑے گا۔

آج کے دن جو لوگ بھی محبت کی اس روایت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں وہ صرف مغربی تقلید میں کرش، افئیر اور گلیمر کے سحر میں مبتلا ہیں، ان کی تقلید سے پہلے یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اسی سحر میں وہاں کا خاندانی نظام تہہ و بالا ہو چکا ہے، پھر یہ بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ دنیا کی ملٹی ملیئن بزنس انڈسٹری اپنے مقاصد کیلئے اس گلیمر کو کیسے پروموٹ کرتی ہے، دنیا میں بڑھتی ہوئی شرح طلاق کو کم کرنے کیلئے تو کبھی کسی کنزیومر انڈسٹری نے ری۔یونین کو پروموٹ نہیں کیا حالانکہ پروموٹ اس اخلاقی و سماجی نظام کو کرنا چاہئے جس میں دو پیار کرنیوالے باآسانی ازدواجی دائرے میں داخل ہو کر زندگی بھر ایکدوسرے سے محبت کشید کرتے رہیں، اس کے ساتھ ساتھ محبت کی چار پانچ دیگر قسمیں بھی پروموٹ کرنے کے قابل ہیں جو بلاشبہ ہر معاشرے کیلئے مفید ہیں لیکن اس میں وہ تجارتی مفادات نہیں ہیں جو ایسے پرجوش ایوینٹس میں انہیں اندھا دھند کمائی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

ویلینٹائین کی سوئی صرف ایروز۔لوو کے ارد گرد ہی گھومتی ہے، اس کھیل میں نقصان صرف جنریشنز کا ہے اور فائدہ صرف کنزیومر پروڈکٹ انڈسٹری کا ہے جو نوجوانوں کی بیالوجیکل فیلنگ۔ان۔لو کو محبت کا انمول جذبہ جتانے پر انویسٹمنٹ کرتے ہیں، میری مانیں تو یہ محبت کا دن نہیں، یہ پھولوں کے گلدستے کیوپڈ کے تیر ہیں جو صنف مخالف کو تھمانے کی بجائے کیوپڈ میاں کو شکریئے کے ساتھ واپس کر آئیں تو اچھا ہے۔

میرے ترکش میں اب ایک آخری تیر باقی ہے، یہ بھی ایک مغربی دانشور کا ہے۔
ولیم بٹلر ییئٹس کی نظم، نیور گیو آل دی ہارٹ۔
الٹے سیدھے اردو ترجمے کیساتھ پیش ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Never give all the heart, for love
محبت میں ایکدم سے دل نہیں دے دینا
Will hardly seem worth thinking of
اس دل کی قیمت مشکل ہی کوئی سمجھ پاتا ہے
To passionate women if it seem
کوئی جذباتی محبوب بھی اگر تمہیں نظر آئے
Certain, and they never dream
یقیناً یہ ممکن ہے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ خواب بھی ملتے ہوں
That it fades out from kiss to kiss
پھر ہر بوسے کیساتھ ان تمناؤں کا رنگ اڑتا چلا جاتا ہے
For everything that’s lovely…

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply