پشاور پریس کلب دھماکےکے آٹھ سال۔ اے وسیم خٹک

 آج بائیس 22 دسمبر 2017 کو پشاور پریس کلب پر خودکش دھماکے کے  آٹھ  سال مکمل ہوجائیں گے مگر ابھی تک دھماکے میں ملوث عناصر کو نہ ہی گرفتار کیا جاسکا نہ ہی ان کا پتہ لگایا جاسکا کہ کون سے عناصر اس خودکش دھماکے میں ملوث تھے۔ بائیس دسمبر2009 کوہونے والے دھماکے میں چار افراد سمیت بیس افراد زخمی ہوئے تھے۔پریس کلب وہ جگہ ہے جہاں عموماً  غریب لوگ اپنے مسائل کو حکومتی زعماء تک پہنچاتے ہیں جن کوحکومتی اداروں پولیس ،واپڈا یا دیگر محکموں سے مسائل ہوتے ہیں وہ اپنا دکھڑا اخباری نمائندوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جن کو اخباری نمائندے نمایاں جگہوں پر کوریج دیتے ہیں ،بہت سو ں کے مسائل حل بھی ہوجاتے ہیں اور بہت سوں  کے مسائل اعلی حکام کے پاس پہنچ جاتے ہیں یا پھر سیاسی رہنماء عوام کو حکومتی نمائندوں کی  کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لئے پریس کلب کا سہارا لیتے ہیں، پریس کلب ہر علاقے میں عوام الناس کی نمائندگی کے لئے بناہو اہوتا ہے کیونکہ ان کا ڈائریکٹ حکومتی عہدیداروں سے رابطہ نہیں ہوتا تو وہ اخبارات کا سہار ا لے کر حکومتی کرتا دھرتاؤں  کو باخبر کرتے ہیں ۔
پشاور پریس کلب کو ایک تاریخی حثییت حاصل ہے پشاور پریس کلب کی تاریخی حیثیت پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کی 1960میں پشاور پریس کلب محکمہ اطلاعات کی وساطت سے سابقہ ڈینز ہوٹل میں پریس روم کے نام سے قائم ہو اتھا اور 1964میں چوک یادگار میں واقع میونسپل کمیٹی میں پریس کلب قائم ہوا 1967میں میونسپل کمیٹی منہدم ہونے کے بعد پشاور 8سال تک پریس کلب سے محروم رہا 1974میں عجائب گھر کے ایک حصے میں باقاعدہ طور پر پریس کلب قائم کیا گیا جس کے بعد 1995/96میں سردار مہتاب خان عباسی کی حکومت نے پریس کلب کے لئے زمین دینے کی منظوری دی اور2001میں اس نئے پریس کلب کا افتتاح ہوا۔ یوں تو ہر دور میں پریس کلبوں پر حملوں اور تھوڑ پھوڑ کے واقعات رونما ہوئے ہیں، پشاور پریس پر بھی امیر مقام اور اس کے ساتھیوں نے ایک بار حملہ کیا تھا جس کامقدمہ آج بھی چل رہا ہے مگر ملکی تاریخ میں پریس کلب پر خودکش حملے کی مثال نہیں ملتی اوریوں پشاور پریس کلب پر ہونے والا خودکش حملہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلے واقعے کی حیثیت اختیارکر گیا  ہے

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشاور پریس کلب کاایک اہم رول رہا خواہ وہ گلف وار ہو۔ افغان روس کی جنگ ہو یا پھر 9/11کے بعد کے حالات ہوں ۔پشاور پریس کلب اور اس کے ساتھ منسلک صحافیوں نے جان  ہتھیلی پر رکھ کر جنگ کی رپورٹنگ کی اور عوام کو صحیح خبریں فراہم کیں، الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد اس کی اہمیت اور بڑھ گئی کیونکہ صحافیوں کی تعداد پہلے سے  زیادہ ہو  گئی، پہلے بہت کم تعداد میں صحافی پریس کلب کا رخ کرتے تھے مگر الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد کیمرہ مین ، اور ٹی وی کے لئے رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی میدان میں کود  پڑے اورمشرف دور حکومت میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی گئی تو میڈیا کا رول مثبت ہی رہا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پرائی آگ میں پاکستان اور بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا کو دھکیلا گیااور یہ وہ وقت تھا جب صرف خیبر پختونخو ا  میں ہر تیسرے چوتھے روز خودکش حملہ ہوتا  تھا،جس میں بے گناہ افراد سکیورٹی فورسسز جان سے ہاتھ دھوتے، صحافی ایک دھماکے کی کوریج سے فارغ ہوتے تو دوسرے دھماکے کی رپورٹنگ کے لئے نکل پڑتے ۔

جس نے بھی 2008اور 2009میں پشاور میں صحافت کی ہے اسے اندازہ ہوگا کہ وہ کیسے دن تھے ان کو کہاں کہاں پر رونا نہیں آیا پھر وہ قت بھی آیا جب آنسو خشک ہوگئے دل مردہ ہوگئے تھے اور صرف رپورٹنگ سے غرض ہوتی ،باقی نعشیں پڑی ہوتیں  مگر دل میں ہوک نہیں اٹھتی تھی کیونکہ دھماکے  معمول کا حصہ بن گئے تھے، اور جب کوئی کام روٹین کا  حصہ  ہوجائے تو پھر بندہ عادی ہوجاتا ہے بلکہ ہم نے تو اپنے ایسے دوستوں کو بھی دیکھا جب دھماکہ ہوجاتا اور معلومات ہوتی کہ چار سے پانچ بندے شہید ہوئے ہیں تو کہتے یار یہ تو پٹاخہ تھا اتنا زروردار نہ تھا اور جب کوئی خطرناک دھماکے کی اطلاع ہوتی تو ذہن ماؤف ہوجاتا۔ ہم کو چارونا چار دھماکے کی جگہ پر ساتھی رپورٹر کے ساتھ جانا پڑتا وہاں جائے وقوعہ پر جو حالات ہوتے وہ بھی قابل غور ہوتے ۔لوگوں میں انسانیت نا م کی چیز ہی غائب ہوگئی ہے وہ اپنے مفاد کے لئے کیا کیا نہیں کرتے

یہ دیکھ کر دماغ میں گھنٹیاں بجتی کہ دھماکے میں ایک شخص مرا پڑا ہے اور یہ اس کی   جیب کی تلاشی میں مصروف ہوکر اپنے لئے سامان  جمع کر رہا ہے بہت سے افراد تو پولیس کے ہتھے چڑھ بھی گئے تھے

عوام کو سکیورٹی فورسسز کہتی کہ جائے وقوعہ پر نہ جاؤ کیا پتہ عسکریت پسند دوسر ادھماکہ کر لیں مگر عوام کو تو سیر کرنے کے لئے ایک جگہ مل جاتی۔ پشاور میں کون سی جگہ بچی ہے جہاں دھماکہ نہ ہوا ہو ،بازار،مسجد، پولیس  سٹیشن،سکول ، ہوٹل ، سی آئی اے کی بلڈنگ ، بینک ، امام بارگا ہ اور صحافی برداری کی جگہ پریس کلب بھی نشانہ بن گیا ۔دھماکے سے دو تین مہینے پہلے ہی یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ صحافی بھی ٹارگٹ ہیں ،جس کی صحافیوں کو دھمکیاں ملی تھیں جس کے بعد کلب کی سکیورٹی بڑھانے کے اقدامات کیے گئے تھے اور ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی عائد کی گئی تھی دھماکے سے دو روز قبل باہر ایک کالج کے طلباء کا مظاہر ہ ہورہا تھا جس سے رپورٹرز کو پریس کلب کے صدر شمیم شاہد اور ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے منع کیا تھاکہ اطلاع ہے کہ کالج کے یونفارم میں خودکش بمبار داخل ہوچکا ہے خوش قسمتی سے دھماکے کے وقت کوئی مظاہرہ نہیں ہورہا تھا اور صحافیوں کی بڑی تعدا د چترال کے سابق ایم این اے عبدالاکبر چترالی کے پریس کانفرنس کے لئے کلب میں موجودتھی اور کچھ ساتھی پولیس لائن میں پریس بریفنگ کے خاتمے کے بعد راستے میں تھے کہ 11بجکر43 منٹ پر خودکش دھماکے نے پشاور پریس کلب کے درودیوار لرزادیئے

جس کی وجہ سے چار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، جس میں ریاض چاچا اور اکاؤنٹنٹ محمد اقبال سمیت دو مزید لوگ جو پریس کلب کے سامنے سے اسی وقت گزر رہے تھے لقمہ اجل بن گئے دھماکے میں کسی بھی صحافی کو نقصان نہیں پہنچا تھا اگر خودکش حملہ آور کلب کے اندر آکر عین پریس کانفرنس کے دوران خود کو اڑاتا تو بہت زیادہ نقصان ہوتا اس خودکش دھماکے میں ایک خاتون سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ بیس سے زیادہ زخمی ہوئے تھے دھماکے کے وقت میں چونکہ پریس کلب کے اندر موجود تھا جوں ہی باہر نکلا ایک قیامت خیز منظر ہمارے سامنے تھا آنکھوں سے آنسو رواں تھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ہوا کیا ہے اس وقت بھی اپنے کچھ صحافی دوستوں کی بے حسی دیکھنے میں آئی جب وہ دھماکے کی نیوز اپنے ٹی وی چینل کو دے رہے تھے حالانکہ ہمارے ساتھی زمین پر پڑے موت و زندگی کی کشمکش میں تھے اور ہمارے فوٹو گرافر بھائیوں میں بھی کچھ ایسے تھے جن سے انسانیت چلی گئی تھی وہ اپنے ساتھیوں کی تصویریں کھینچنے میں مصروف تھے شہید صفت غیور دھماکے کے پانچ منٹ کے بعد پہنچ گئے تھے جس نے ریسکیو آپریشن شروع کردیا تھا دھماکے سے خودکش بمبار کے چھیتڑے اڑ گئے تھے اور پریس کلب کے گیٹ سے متصل دوکمرے مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔

دھماکے کے بعد بم ڈسپوذل سکواڈ نے رپورٹ دی کہ خودکش حملہ آور نے دس کلو گرام وزنی بارودی جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس میں کم ازکم دو کلو چھرے تھے پولیس کے مطابق خودکش حملہ آور کے لمبے بال اور چھوٹی داڑھی تھی اور اس کے حلیے سے لگتا تھا کہ وہ وزیرستان کا ہے بمبار نے پیروں میں جرابیں اور چارسدہ کی بنی سیاہ رنگ کی چپل پہن رکھی تھی خودکش بمبار کلب کے اندر داخل ہوچکا تھا مگر شک کی بنا پر جب حوالدار نے اس کی پھر تلاشی لینی چاہی تو اس نے خو د کو دھماکے سے  اڑادیا جس سے ریاض چاچا کے جسم کے چھیتڑے اڑ گئے اور درجنوں صحافیوں کو موت کے منہ میں جانے سے روک دیا،وہ جو ہر کسی کو کہتے تھے کہ آپ لوگ فکر نہ کرو جب بھی کوئی ایسی حرکت کرے گا پہلے اسے میری لاش پر سے گزرنا ہوگا پھر  آپ لوگوں کی باری ہوگی، جب تک میں یہاں پریس کلب کی گیٹ پر ڈیوٹی دوں گا کسی کی  بھی مجال نہیں ہے اور یہ بات ریاض چاچا نے سچ کرکے دکھائی اور خود موت کو گلے سے لگا کر سب کی جان پچا لی۔ اس دھماکے میں اکاوئنٹنٹ میاں اقبال شاہ بھی شہید ہوگئے تھے جو سردی کے باعث باہر گیٹ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ دھماکے کی زد میں آگئے اورہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر جام شہادت نوش کرگئے۔

پشاور پریس کلب میں ہونے والے دھماکے میں اے جی آفس پشاور کی خاتون آڈیٹر چالیس سالہ روبینہ شاہین دختر غلام غوث ساکن اندورن گنج محلہ عیسی نعلبند بھی شکار ہوگئی تھی جو گزشتہ بیس سال سے اے جی آفس میں خدمات انجام دے رہی تھی وہ دھماکے کے روز دفتر سے چھٹی کے بعد رکشہ میں گھر جارہی تھی کہ پشاور پریس کلب کے سامنے سے گزرتے ہوئے دھماکے کی زد میں آگئی اور حرکت قلب بند ہوجانے کیوجہ سے دم توڑ گئی، متوفیہ کے والدین بیس سال پہلے دار فانی سے کوچ کر گئے تھے اور روبینہ نے اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھا یا ہوا تھا مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور پشاور پریس کلب دھماکے کی نذر ہوگئی۔ دھماکے میں صحافیوں پر جان نچھاور کرنے والے ریاض الدین کا تعلق پٹوار بالا کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق تھا اچھی خاصی جائیداد کے باوجود اپنے  شوق کی خاطر پولیس میں بھرتی ہوا تھا ان کے خاندان والوں نے کئی بار اسے پولیس کی نوکری چھوڑنے کا کہا تھا مگر وہ کہتے تھے کہ موت سے ڈر کر بھاگنا بزدلی ہے اور مردانگی کے خلاف ہے اس کے دو بچے محمد عزیر،اور شہیر دونوں اس سانحے کی وجہ سے اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوگئے ریاض الدین نے 1986میں پولیس میں ملازمت اختیار کی تھی جبکہ میاں اقبال شاہ جس نے کچھ عرصہ قبل ہی پریس کلب میں ملازمت اختیار کی تھی ہر کوئی اسے اس کی محنت کی وجہ سے پسند کرتاتھا اس کی موت سے جو خلا اس کے گھر والوں کے لئے پیدا ہوا  وہ کوئی نہ پر کر سکے گا۔

آٹھ سال گزرنے کے باوجود پشاور پریس کلب پر خودکش دھماکے کی  ذمہ داری کسی بھی تنظیم نے نہیں لی اور نہ ہی اس دھماکے کے ملزموں کو گرفتار کیا جاسکا ہے ،پریس کلب انتظامیہ نے بھی اس میں کوئی خاص رول ادا نہ کیا اور نہ ہی حکومت نے صحافیوں کے مجرموں کو پکڑنے میں ان کی مدد کی، ان پانچ سالوں میں صرف اتنا کیا گیا کہ پشاور پریس کلب کو محفوظ بنانے کے لئے بم پروف کمرے بنایے گئے پشاور پریس کلب کی گولڈن جوبلی منائی گئی باقی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں، صحافی آج بھی خطرے کے سائے تلے اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں وہ وار زون میں جان کو خطرے میں ڈال کر عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں حکومت کو اور پریس کلب انتظامیہ  کو اس بارے میں سوچنا چاہیے ۔ خدا نہ کرے پھر سے ایسا واقعہ ہوگیا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply