عورت کی رضامندی

عورت کی رضامندی
زرمینہ زر
میرے پیروں میں زوجیت اور شرم و حیا کی بیڑیاں ڈال کر
مجهے مفلوج کر کے بهی
تمہیں یہ خوف نہیں چهوڑے گا
کہ میں چل تو نہیں سکتی
مگر سوچ تو سکتی ہوں۔۔۔۔
خاندان در حقیقت ایک چهوٹا سا معاشرہ ہے جو دو افراد میاں اور بیوی کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ معا شرہ صرف لو گوں کی کثرت اور ہجوم کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ اس باہمی تعلق کا نام ہے جس کے مقاصد اور ہدف ایک ہوں۔ قرآن پاک نے ان کے درمیان محبت و الفت کے اس ہدف کو اطمینان اور سکون کا نام دیا ہے۔عورت اور مرد نکاح کے مقدس بندهن میں بندهنے کے بعد ایک دوسرے کےہمسفر، شریک حیات اور زوجین کہلاتے ہیں اور اس نکاح کے ذریعے ان دونوں نے ایک دوسرے کے حقوق و فرائض پر مبنی مشترکہ زندگی بسر کر نے کا پختہ عہد کر رکها ہو تا ہے. قرآن کریم ان کے اس تعلق کو اس طرح بیان کر تا ہے۔
“اے لوگو اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے جوڑا خلق کیا اور ان دو سے بہت سارے مرد اور عورتیں پهیلائیں”
نکاح در حقیقت ایک “عہد”ہے یعنی ایک ساتھ مل کر زندگی گزارنے کا عزم ، وعدہ ،یہ ایک کنٹریکٹ ہے جو دو افراد مل کر کر تے ہیں کہ ہم اپنی آنے والی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ کن کن اصولوں کو مد نظر رکھ کر گزاریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ معاہدہ کر تے کون ہیں ؟؟ دستور ہے کہ جب بهی کوئی نیا کام یا بز نس کی شروعات دو افراد مل کر کر نے کا فیصلہ کر تے ہیں وہ اس سے پہلے ایک پختہ عہد لیتے ہیں جو لکهی ہوئی تحریر کی صورت میں ہوتاہے۔ اسی طرح نکاح نامہ بهی ایک پختہ عہد کی تحریری شکل ہے۔ جس میں ساتھ زندگی گزارنے کے قوانین درج ہوتے ہیں جنھیں پڑھ کر دو افراد رضامندی کی مہر ثبت کر تے ہیں۔
مگر ہو تا کچھ یوں ہے کہ اسے زیادہ تر صرف مرد ہی پڑھ کر ا پنی مر ضی سے پر کر تے ہیں لڑ کی کا کام صرف اس پر اپنی رضامندی کی مہر لگانا ہو تا ہے جبکہ وہ اس بات کا حق رکهتی ہے کہ وہ اسے پڑهے سمجهے اور خو د پر کروائے تاکہ آنے والی زندگی کے بہت سے مسائل سے خود کو بچا سکے ۔مگر جناب یہاں تو عالم یہ ہے کہ بالغوں کے ساتھ ساتھ نابالغوں کے نکاح بهی پڑهوائے جاتے ہیں جنهیں ابهی خود اچهے برے کی تمیز نہیں ہوتی۔ انهیں زوجین کے رشتے میں باندھ دیا جاتا ہے۔ آج کے اس دور میں بهی لڑکیوں کو نکاح نامہ ساتھ بٹها کر پڑهوایا نہیں جاتا۔ پتہ نہیں کون سی انا یہاں آڑےآجاتی ہے۔ رخصت ہونے سے چند گهنٹے پہلے اس کے سامنے پورے مجمع کے سامنے لا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں لڑکی پہلے ہی بے حد جذباتی ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک طرف گهر والوں سے بچهڑنے کا دکھ ، ایک اجنبی شخص کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کی فکر، ایک نئے گهر میں اپنی جگہ بنانے کی سوچ اسے دامن گیر ہوتی ہے۔ ایسے میں جهکے سر کے ساتھ ہزاروں واہموں اور خیالات کے درمیان رضامندی کی مہر ثبت کر کے وہ ایک نئی زندگی میں قدم رکھ دیتی ہے۔
فطری شرم و حیا ایک طرف رکھ کر زندگی کے اس اہم موڑ پرجو اس کی پوری زندگی بدلنے جا رہی ہوتی ہے اس کی ہر بات پر رضامندی بے حد ضروری ہے۔ اسے بهی ایک مرد کی طرح پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے کے اظہار کا بهر پور حق دیا جانا چاہئیے تاکہ آنے والی زندگی کے نا خوشگوار حالات سےبا آسانی نبرد آزما ہوا جا سکے۔
اکثر نکاح ناموں میں عورت کے حقوق کے تحفظ کرنے والے حصے کو لکیر کهینچ کر کاٹ دیا جاتا ہے۔ چلو قصہ ہی ختم ۔اس حصے میں تفویض طلاق نان نفقہ سے لیکر دوسری شادی کی اجازت شامل ہو تے ہیں اگر کوئی لڑکی جرات دیکها کر ان پر اپنے رائے کا خصوصا ًتفویض طلاق پر بات کر لے تو اسے بے حیا ،گهر بسانے سے پہلے اجاڑنے کے خواب دیکهنے والی سمجها جا تا ہے۔ نکاح کے وقت طلاق کی بات بد شگونی ہے حالانکہ نکاح کے بعد ہی بہت سے لوگوں کی زندگی میں طلاق کا مر حلہ آتا ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کون جانے آگے چل کر بہت اچها دکهائی دینے والا شخص یا اس کا خاندان ا س لڑکی کے لیے اتنے ہی اچهے ثابت ہو نگے جتنے آج دکهائی دے رہے ہیں ؟کیا خبر آگے چل کر اولاد نہ پیدا ہو اور اس کا الزام عورت پر رکها جائے جبکہ قصوروار مرد ہو سکتا ہے ،ممکن ہے مرد پہلے سے شادی شدہ ہو۔ محض گهر والوں کے دباؤمیں آکر یہ شادی کر رہا ہو ؟ان حالات میں عورت کے ہاتھ یہ حق تو ہو کہ وہ خود کو اس بندهن سے آزاد کر سکے جو اس کے لیے خو شگواریت سے زیادہ نا خو شگواریت کا باعث بن رہا ہے۔
حال ہی میں ایک افسوسناک واقعہ سامنے آیا ۔گر یجویٹ لڑکی کی شادی حسب روایت ان باتوں کو خاطر خواہ اہمیت دئیے بغیر دوسرے شہر میں کر دی گئی۔ لڑکا انجینئر ،اچهی آمدنی 3 ماہ شادی کو ہوئے تب لڑکی کو پتہ لگا موصوف پہلے سے شادی شدہ اور بچوں کے والد محترم ہو نے کا شرف رکهتے ہیں۔ پہلی بیوی سگے ماں باپ کے ساتھ مقیم ہے جبکہ دوسری شادی چچا چچی کی تنہائی دور کر نے کے لیے کی گئی تاکہ حق پرورش بهی ادا ہو جائے۔ جب شوہر نامدار کی اس چالاکی کا لڑکی کو علم ہوا ۔وہ دل برداشتہ ہو کر والدین کے گهر آ بیٹھی۔ یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی اس موقع پر تمام اخراجات والدین نے بر داشت کئے۔شوہر صاحب کی جانب سے بچے کی پیدائش کو لے کر کسی خوشی تک کا اظہا ر نہ کیا گیا۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے والدین نے بیٹی کے سسرال جاکر معاملات نبٹانے کا سوچا، مگر وہاں سے ٹکا ساجواب آیا ۔جیسے گئی ہے ویسے آجائے۔ نہ لینے آئیں گے نہ طلاق دیں گے۔ ان حالات میں لڑکی کی زندگی سولی میں لٹک گئی اب ایک طرف وہ نوکری کر رہی ہے دوسری جانب خلع کے لیے کورٹ کچہری کے چکر لگائے جا رہے ہیں۔ پانچ لاکھ سکہ رائج الوقت حق مہر منہ چڑا رہا ہے۔ لاکهوں کا جہیز داؤ پر لگا ہے۔ سب سے بڑھ کر لڑکی کی زندگی بر باد ہو گئی.یہاں بات آئی حق مہر کی جو نکاح میں سب سےاہم اور ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکهتا ہے۔
بلوچ کلچر میں شادی کے موقع پر گولڈ کی صورت میں لڑکی کو یہ حق فوراََ دے دیا جا تا ہے مگر دیگر کلچر میں ایسا کم کم ہی دیکهنے میں آتا ہے۔ دستور یہ ہے کہ نکاح کے فورا ًبعد حق مہر ادا کر دیا جائے آج کل بهاری بهر کم مہر رکهنے کا رواج ہے اسے لڑکی کے لیے سوشل سیکیورٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر ہو تا یہ ہے کہ اکثریت لڑکیوں کی ایسی بھی ہے جو اپنے مہر کا ایک رو پیہ تک نہیں دیکھ پاتیں۔ اس کے بر عکس اگر نباہ کی صورت نہ بن سکے اسی مہر کے بدلے لڑکی خلع لے کر اپنی جان آزاد کرتی ہے۔حق مہر کی کم سے کم حد لڑکے کی 3 ماہ کی آمدنی کے برابر اس بات کو یقینی بنا کر رکهی جائے کہ ،اگر آگے چل کر گهر نہ چل سکے تو وہ اسے لڑ کی کو ادا کر ے تاکہ عدت کے زمانے کو وہ سکون سے گزار سکے۔
لڑکی اور اس کے والدین شروع میں ہی عقل سے کام،لیتے ہوئے تمام معاملات طے کر یں تاکہ آنے والی زندگی کے مسائل سے بہتر طور پر نبٹا جاسکے۔ یہاں لڑ کا اور لڑکی دونوں کے والدین کو دل بڑا کر کے دونوں کو ساتھ بٹها کر شادی کے تمام معاملات طے کر نے چاہئیں۔ باہمی رضامندی کے ساتھ نکاح نامہ بهرا جائے۔
دونوں کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جائے۔ شادی صرف اچهے کپڑے، مہنگے زیورات ،اعلیٰ فر نیچر اور بهاری جہیز ،پہناوے چڑهاوے لین دین کا نام نہیں۔ یہ ایک نئے معاشرے کی شروعات کا نام ہے۔ مگر افسوس چڑهاوے، پہناوے ، ہال ، کهانے کپڑے لتے پر تو مہینوں بحث کی جاتی ہے ،زور و شور سے بری اور جہیز کی تیاریاں کی جاتی ہیں مگر ان اہم امور پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جو دینی چاہئیے۔ خواتین یہ کہہ کر جان چهڑا لیتی ہیں ارے بهئی یہ تو خالصتاََ مردوں کا معاملہ ہے، ہم کیا بولیں!! اگر یہی رویہ روا رکها گیا تو اس معاملے میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔

Facebook Comments

زرمینہ زر
feminist, journalist, writer, student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply