اگر زندوں میں ہے

اگر زندوں میں ہے
راشد احمد
رات آدھی سے زیادہ بھیگ چکی تھی ۔لوگ بستروں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ایک نوجوان چراغ کی روشنی میں مصروف مطالعہ تھا ۔آنکھوں میں چمک اور چہرہ عالی جذبات سے روشن تھا۔کچھ کر گذرنے کی لگن چہرے سے صاف عیاں تھی۔اچانک گھر میں کسی بڑے کی آنکھ کھل گئی۔دیکھا کہ چراغ ابھی تک جل رہا ہے۔بڑے پیار سے استفسار کیا گیا’’بیٹا آپ ابھی تک سوئے نہیں‘‘۔جواب ملا’’میں اگر سو گیا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا‘‘۔یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ بانئِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تھے،جنکی ساری زندگی محنت اور مشقت سے عبارت تھی۔تمام عمر جو محنت شاقہ سے گزرتے رہے اور کبھی بھی محنت سے جی نہیں چرایا۔ان کی شب وروز کی محنتوں کا ثمر پاکستان کی صورت ہمارے سامنے ہے۔
دنیا میں کامیابی اور ناکامی نسبتی چیزیں ہیں ۔ایک ہی فرد کیلئے کوئی چیز عظیم الشان کامیابی ہوتی ہے تو وہی کامیابی کسی دوسرے شخص کیلئے دل سوز ناکامی،مگر ایک بات طے ہے کہ ناکام اور کامیاب لوگوں میں امتیاز صرف اور صرف محنت ہے۔وہ لوگ جو کامیابی کے آسمانوں پر روشن ستارے بن کر چمک رہے ہیں ان کی زندگیاں عمل پیہم اور محنت شاقہ سے عبارت ہیں،جبکہ ناکام لوگ ناکامی کی وجوہات ہمیشہ تلاش کرتے رہتے ہیں ،حالانکہ اگر انسان اپنے من کوٹٹولے اپنی ناکامیوں کا جائزہ لے ،اپنی غلطیوں سے سیکھے اور یوں کارگاہ زیست کی منزلیں سیڑھی بہ سیڑھی طے کرتا جائے تو یقیناًکامیابی اس کے قدم چومے گی ۔ایڈیسن کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ بلب کا تجربہ کرنے کے دوران اسے گیارہ سو دفعہ ناکامی برداشت کرنی پڑی،لیکن آخرش وہ کامیاب ہوا۔وہ کہا کرتا تھا کہ میں گیارہ سو ایسے تجربے جانتا ہوں جن سے بلب نہیں بن سکتا۔
آج کل ہر دوسرانوجوان زندگی اور حالات سے نالاں اور شکوہ کناں نظر آتا ہے ۔ہر دوسرا شخص شکایات کا ایک بحر بیکراں سینے میں لیئے پھرتا ہے ۔بس اک ذرا چھیڑیئے پھر دیکھیئے کیا ہوتا ہے۔نظام کو گالی دی جاتی ہے،معاشرے کو قصوروار بتلایا جاتا ہے،تعلیمی نظام کا نوحہ پڑھا جاتا ہے،لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان تمام ناکامیوں اورپریشانیوں کی وجہ دراصل یہ ہے کہ محنت کی عادت نہیں رہی۔سہل انگاری زوروں پر ہے۔ہر کوئی شارٹ کٹ سے ترقی کا خواہاں ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کوئی چھپر پھٹے گا اور اس کی تمام مرادیں بر آئیں گی،حالانکہ قدرت اپنے قوانین کبھی تبدیل نہیں کرتی۔اس کا دن ہر خوردو کلاں کے لیئے چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔دن اور رات ہر محنتی اور نکمے پر آتی ہیں۔بارش ہر اندھے سجاکھے کیلئے برستی ہے ۔جو محنت کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے۔
جولوگ شہرت کی بلندیوں کو چھوتے ہیں ،ان کے پیچھے ہمیشہ راتوں کی جانگسل محنتیں اور دن کی بھاگ دوڑ شامل ہوتی ہے ،جبکہ نکمے اور فضول لوگ جو اپنا میجر ٹائم گپیں ہانکنے اور خیالی پلاو پکانے میں گذارتے ہیں دن کے اختتام پر ہمیشہ حالات اور تقدیر سے خفا نظر آتے ہیں۔
آرام طلبی ان کے رگ رگ میں رچ بس گئی ہوتی ہے ،جفاکشی سے آنکھیں چراتے ہیں ،تو کامیابی کس طرح ان کے در پر دستک دے گی جبکہ کامیاب لوگ ہمیشہ اپنے مقصد اور کاز سے کمٹٹد رہتے ہیں ۔آندھی ہو یا سیلاب ،خوشی ہو یا غمی یہ لوگ اپنے مقصد سے اپنی نگاہیں نہیں ہٹاتے۔کسی اور کام میں بھی مصروف ہوں تو دل وہیں اٹکا رہتاہے ۔مغرب جو آج ترقی کے آسمانوں پر کمندیں ڈال رہا ہے یہ ان کی صدیوں کی محنت کا ثمر ہے۔قدرت نے یہ نعمتیں اور خیرہ کن تر قیات انھیں صد قے میں نہیں دیں ۔یہ لا زوال کا میا بیا ں انھو ں نے اپنی محنت اور زور بازو سے حاصل کیں ۔اپنے آرام اور سکون کو تج دیا اور اپنے آج کو آنے والے کل کیلئے قربان کیا تب جاکر انہوں نے اک دنیا کو اپنے زیر نگیں کیا ۔
ہم ہر دم شکوہ کناں رہتے ہیں کہ علم وہنر اور تہذیب و ترقی کے وارث ہم ہیں جبکہ مغرب کے کافرہم پہ حکومت کر رہے ہیں ۔یہ وہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک بزرگ ولی اللہ مجلس میں وعظ کر رہے تھے۔اسی مجلس میں ایک مشائخ زادہ بھی تھا جسے ولی اللہ سے اندرونی بغض تھا۔خدا تعالی ٰنے اسکی یہ حالت بزرگ کو کشفاً دکھلا دی تب بزرگ نے بڑی حکمت سے ایک حکایت بیان کی کہ رات کے وقت ایک محفل میں ایک لیمپ روشن تھاجس میں پانی اور تیل ملا ہوا تھا تیل پانی کی اوپری سطح پر تھا ۔پانی نے تیل سے پوچھا کہ میں پاک صاٖف پانی ہوں۔ وضو کے لئے بھی استعمال ہوتا ہوں جبکہ تو کثیف ہے اس کے باوجود تو مجھ پہ غالب ہے آخر کیوں؟ تب تیل نے جواب دیا جتنی محنتوں اور مشقتوں سے میں گزرا ہوں تو نے وہ تنگیاں کہاں اٹھائیں۔ ایک وقت تھا جب میں گھاس پھوس تھا زمین میں دفن ہوا صدیوں مجاہدہ کیا تب مایا بنا اس کے بعد کئی حالتوں سے گزر کر زمین سے نکالا گیا اور مشینوں میں سے گزارا گیا اتنی محنت اٹھا کر بھی میں اوپر نہ آؤں۔پانی یہ سن کر اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔
کامیاب اور ناکام لوگوں کی مثال اس حکایت سے خوب عیاں ہے۔آج وہ اقوام جو مسلمانوں پر غالب آئی ہوئی ہیں اور مسلمان باوجود علم وہنر کے وارث ہونے کے ان کے زیر نگیں آئے ہوئے ہیں تواسکی وجہ محض ان کی محنت ہے۔چاہے یہ محنت تعلیم و تحقیق کے شعبہ میں ہویاجنگ وجدل کے کوچہ میں ۔انہوں نے ہر جگہ جاں سوز محنت کی تب قدرت بھی ان پر مہربان ہوگئی۔ہمیں بھی صرف واویلا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔پدرم سلطان بود کا دامن چھوڑ کر اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہونا پڑے گا ۔جفاکشی او رعمل پیہم اور محنت شاقہ کی عادت ڈالنی پڑے گی۔آرام وآسائش کا چوغہ اتارنا ہوگا ورنہ آج کے اس برق رفتا ر دور میں ہمیں کچلنے کیلئے بھی کسی کے پاس وقت نہیں ہوگا ۔ہم اک ناقابل یقین دور میں جی رہے ہیں ،یہاں صرف وہی سلامت رہے گاجس کے بازو میں دم خم ہوگا۔اپنی پہچان آپ بنانی پڑے گی اور بقول شاعر مشرق اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔ورنہ یہ سمجھنے کیلئے ارسطو یا افلاطون ہونا ضروری نہیں کہ انجام گلستاں کیا ہوگا۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply