سکاٹ لینڈ میں بھی دو عیدیں۔۔۔طاہر انعام شیخ

سکاٹ لینڈ کی ڈائری…طاہرانعام شیخ
آج سے چند برس پیشتر جبکہ برطانیہ کے بے شمار شہروں میں دو عیدیں کرنا ایک معمول کی بات تھی سکاٹ لینڈ پورے یورپ میں ایک مثالی حیثیت رکھتا تھا، جہاں پر ایک ہی دن رمضان کا آغاز کیا جاتا اور مشترکہ طور پرایک ہی دن عید منائی جاتی۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ یہاں پر صرف ایک ہی مکتبہ فکر کے علماء تھے بلکہ مختلف عقیدوں کے حامل ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے کے لئے دلی احترام رکھتے تھے، روزہ یا عید کا آغاز کوئی حلال حرام کا مسئلہ تونہ تھا، فقہی مسئلہ تھا۔ مرکزی جامع مسجد گاربلز میںہر مکتبہ فکر کے علماء پر مشتمل ایک رویت ہلال کمیٹی قائم تھی اور انہوں نے ایک مشترکہ فارمولا تیار کررکھا تھا جس میں مقامی طور پر چاندنظر نہ آنے کی صورت میں قریب ترین مسلم ممالک مراکش اور سعودی عرب اور جنوبی افریقہ کے نام تھے، آبزوریٹری کی طرف سے چاند کے امکان پر وہاںچاند دیکھے جانے کی شہادت کو قبول کرلیا جاتا تھا اور کسی اختلاف کی صورت میں ایک لمبے بحث و مباحثے کے بعد وسیع تر اتحاد کی خاطر کوئی ایک گروپ اپنے موقف میں نرمی پیدا کرتے ہوئے قربانی دے دیا کرتا تھا، اس وقت گلاسگو کی مضبوط سیاسی و سماجی قیادت بھی اس اتحاد کو قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی تھی۔ حالات خرابی کی طرف اس وقت مائل ہونا شروع ہوئے جب برطانیہ میںمختلف مکتبہ فکر کے اپنے اپنے ٹیلی ویژن چینل شروع ہوگئے اور ان میںسے بعض نے اتحاد کے بجائے اپنے اپنے فقہی عقیدے کا پرچار شروع کردیا، صورتحال کچھ ایسی نہیںکہ مرکزی جامع مسجد کے اجلاس میں اگر کوئی عالم اتحاد کے خیال سے اپنے موقف کی قربانی دے کر واپس جاتا تو وہاں جمع مسجد کے نمازی ان کے پیچھے پڑجاتے کہ ٹی وی پر ہمارے عقیدے کے علماء تو یہ کہہ رہے تھے کہ عید فلاں دن ہے آپ نے یہ فیصلہ کیسے قبول کرلیا، اور یوںایک طبقہ فکر کے علماء کا علیحدہ اتحاد بن گیا اور سکاٹ لینڈ میں بھی دو دو عیدوں کا آغاز ہوگیا۔ ایسے وقت میں سکاٹش ہلال فورم کے نام سے ایک نیا گروپ سامنے آگیا جو چاند کے سلسلہ میںسائنسی مدد پر زیادہ یقین رکھتا تھا اس میں ادارہ منہاج القرآن، مدرسہ ضیاالقرآن، یوکے اسلامک مشن، مسلم ایسوسی ایشن آف سکاٹ لینڈ اور جامع اسلامیہ ٹنٹالن نمایاںتھے، ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے والے گروپ کے برعکس ان کا موقف تھا کہ ایک غیراسلامی ملک میںعید وغیرہ کے لئے مسلمانوں کی ضروریات مختلف ہیں اور یہاںلوگوں کو عید کی چھٹی پیشگی لینا پڑتی ہے، چنانچہ ان کو اس بارے میں پہلے علم ہونا چاہئے ان کا موقف ہے کہ اگر آبزویٹری کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ یا گلوب پراس کے نیچے مسلم ممالک میں کسی بھی جگہ پر رویت کا یقینی امکان ہے، یعنی آبزویٹری کی طے کردہ 6کیٹگری میںچاند کی رویت کا لیول کم از کم سی C یا اس سے اوپر ہو تو پیشگی عید یا رمضان کی تاریخ کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنس اب اتنی ترقی کرچکی ہے کہ ہم پورے سال کے دورانیہ کا پتہ لگاسکتے ہیں کہ کس مخصوص علاقے میں چاند کس وقت اور کتنی دیر تک دیکھا جاسکتا ہے۔ نئی نسل جو کہ رمضان اور عیدین کے آغاز پر ہونے والے اختلافات پر سخت پریشان ہے اور اس بات کے خطرات ہیں کہ کہیں وہ دین سے دور نہ ہوجائیں، چنانچہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام گروپس، ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے، آبزویٹری کی رپورٹس قریبی مسلم ممالک یا سعودی عرب کے ساتھ کسی بھی ایک فارمولے پر متفق ہوجائیں۔ امام ابو حنیفہ کا تو یہ کہنا ہے کہ دنیا میںکسی بھی جگہ چاند نظر آنے پر رمضان یا عید کا آغاز کیا جاسکتا ہے اگر اس فارمولے کو اپنالیا جائے تو پوری دنیا کے مسلمان بھی ایک ہی دن عید مناسکتے ہیں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply