خدا کے بندے۔حسام درانی

محفل بہت سی اقسام کی ہوتی ہیں ان میں سے چند محافل ایسی ہوتی ہیں جن میں انسان ہنسی مذاق کے لئے شرکت کرتا ہے، بعض  میں انسان سیکھنے کی غرض سے شامل ہوتا ہے، چند محافل انجمن ستائش باہمی کا ایک اعلی نمونہ ہوتی ہیں چند محافل میں ” نشستن گفتن و برخاستن ” ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایسی محافل بھی ہوتی ہیں جو کہ  انسان کو اندر سے ہلا کر رکھ دیتی ہیں، اور انسان کے سوچنے اور چیزوں کو دیکھنے کا طریقہ کار ہی بدل دیتی ہیں۔

چند دن پہلے احمد سہیل (یو ایم ٹی پریس) کا فون آیا اور ایک بیٹھک کی  بابت بات شروع کی اور کہا کہ  آ جاؤ پروگرام ترتیب دیتے ہیں، میں نے کہا بھیا ابھی پچھلے ہفتے ہی تو ایک بیٹھک کی ہے اب سوموار کو دوبارہ پروگرام بنا رہے ہو، وہ بھی سہہ پہر کا، دن کا وقت ہو تو لوگ پھر بھی ناشتہ کے چکر میں اکھٹے ہو جاتے ہیں ہفتہ کا پہلا دن وہ بھی شام کا پروگرام۔ یار لوگ اکٹھے شاید نہ ہوں،

لیکن احمد نے کہا نہیں  بھائی! ہم ویسے بھی صرف چند لوگوں کو ہی بلانا چاہتے ہیں تاکہ گفتگو میں بھرپور شمولیت ہو اور امجد اسلام امجد کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا جاۓ۔
پروگرام کی ترتیب کے دوراں پتہ چلا کہ  غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر عامر محمود جعفری صاحب بھی مدعو ہیں اور ان سے پاکستان میں تعلیم کی حالیہ صورتحال پر گفتگو ہوگی خیر پروگرام ترتیب پا گیا، ویسے آپس کی بات ہے میں ذاتی طور پر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو دوسرے سکولز سسٹمز اور ٹرسٹ کی طرح ہی لے رہا تھا اور بطور ایک باپ کے جس کے بچے پرائیویٹ سکول میں پڑھتے ہیں اس پروگرام کے لیے کافی تگڑے سوال  تیار کیے جو کہ  ان سکولز کی بڑھتی ہوئی فیسوں اور گرتے ہوئے تعلیمی معیار کو مدنظر رکھ کر سوچے تھے۔

مقررہ دن ہال میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ  احمد سہیل کے ساتھ ایک شخصیت برا جمان ہے، سلام دعا کے بعد غور کیا تو وہ جعفری صاحب تھے فورا گھڑی کی طرف دیکھا تو وقت 2:50 تھا مطلب کہ  وہ مقررہ وقت سے پہلے ہی آ چکے تھے، اس دوران ان سے روائتی گفتگو ہوتی رہی، ایک شخص جس کو میں ایک روائتی کاروباری سمجھا تھا وہ تو اس کے برعکس رویہ کا حامل ہے، یہ ہی بات دماغ میں عجیب سی کشمکش پیدا  کیے جا رہی تھی، اسی دوران ڈاکٹر عمرانہ نے تقریب  باقائدہ شروع   ہونے کا اعلان کیا اور تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول  آغاز ہوا۔

اسی دوران صدر محفل جناب امجد اسلام امجد بھی تشریف لے آۓ اور باقاعدہ تقریب کا آغاز ڈاکٹر عمرانہ نے عامر محمود جعفری صاحب کے تعارف سے کیا، جو کہ  مجھ جیسے کو تاہ  نظر کے لیے چشم کشا تھا اور مَیں   جو عامر محمود جعفری صاحب کے بارے میں ایک کاروباری شخصیت اور ان کے سکولز کو کاروباری ادارے کی حیثیت دے چکا تھا وہ ڈھانچہ یک لخت ہی زمین بوس ہو گیا، جعفری صاحب کی ٹیم ممبران کی گفتگو اور ان کے بڑے بھائی وقاص جعفری کی گفتگو سن کر اک گونا ں  گو کی سی کیفیت ہو گئی اور میں نے چپکے سے سوالات والا کاغذ پھاڑ کر قریب پڑی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، اور اس کے بعد جب جعفری صاحب نے اپنی دھیمی آواز میں نپی  تلی گفتگو شروع کی ،توں توں میں کرسی میں دھنستا ہی چلا گیا۔

عامر صاحب ایک پڑھے لکھے اور تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیرون ملک سے تعلیم یافتہ انتہائی حلیم طبعیت کے مالک نے زمانہ طالب علمی میں ہی غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے عملی طور پر کام شروع کر دیا تھا، وہ صوبہ پنجاب کے علاقہ میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں اور سب سے پہلے 1995 میں انہوں نے میانوالی کے ہی ایک گاؤں میں سکول بنا کر اس ٹرسٹ کا باقاعدہ آغاز کیا   جس کا مقصد  علاقے  کے غریب  ، یتیم بچوں   کو ترجیحی بنیادوں پر  تعلیم کے زیور سے آراستہ کرناتھا۔  غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ پاکستان کے تمام صوبوں میں اپنی ایک چین بنا چکا ہے اور اس معاملے میں اپنے ہم عصر سسٹمز میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے،

وہ ٹرسٹ جو کہ  1995 میں ایک چھوٹے سے سکول سے شروع ہوا تھا آج 2017 میں  اپنی مثال آپ ہے، آج کے دن تک پورے پاکستان کے تمام صوبوں میں اس کے  سکولز کی تعداد 695 ہے اور 15 طالبعلموں سے شروع کرنے والے آج 94000 سے زائد طالبعلموں اور 5000 سے زائد اساتذہ کے ساتھ پاکستان کا ایک نمایاں سکول سسٹم  چلا رہے ہیں ۔

اس موقع پر بہت سے دوستوں اور تقریب کے شرکاء نے گفتگو کی اور حکومت وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کی حکومتوں پر بھی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے کڑی تنقید کی اس کا جواب امجد اسلام امجد نے اس طرح دیا کہ ۔۔
” ملک جنون سے بن تو جاتے ہیں لیکن چلانے کے لیے اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ  جب ملک بنا ہمارے ادارے چند نااہل افراد کے ہاتھوں میں دے دیے گئے جس کا نتیجہ  یہ  نکلا کہ  ہم تعلیم کے میدان میں اس حالت میں ہیں”۔

اتنے بڑے خیراتی ادارے کو چلانے کے لیے  فنڈز کی بھی ایک کثیر مقدار چاہیے ہوتی ہے اور اس کا بیڑا بھی دوستوں نے فنڈز اکھٹے  کرنے پر اٹھا رکھا ہے ،جناب امجد اسلام امجد اور مسعود انور صاحب جو   پاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ،غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے برانڈ ایمبیسیڈر  ہیں اور ان کی فنڈ رائزنگ کے پروگرامز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں چاہے پاکستان یا پاکستان سے باہر جہاں پر بھی ہوں۔

اسپیشل بچوں کے پروگرام  شروع کرنے کے بارے سوال کے جواب میں عامر جعفری صاحب نے کہا جب میرا بیٹا پیدا ہوا اور چھ ماہ بعد ہمیں پتہ چلا کہ  وہ ذہنی معذور ہے تو میں  نے اسے انگلینڈ بلایا، جب میں وہاں تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھا دو سال کے دوران بچے کا علاج ہوا لیکن جیسے ہی میری تعلیم مکمل ہوئی میں پاکستان واپس آ گیا اور ادھر ایک ایسے ادارے/سکول کے قیام کی کوششیں تیز کر دیں جو  ذہنی معذور بچوں کے علاج اور تعلیم میں اپنی مثال آپ ہو  اور چھ ماہ بعد ہی میں نے اپنے بیوی بچوں کو واپس پاکستان بلا لیا،
یہاں انہوں نے اپنے ایک اور پراجیکٹ کا بھی بتایا

” Teachers   at   home   for   disables ”

اس پروگرام کے ذریعے ان بچوں کو بھی علاج و تعلیم کی سہولت دی جاۓ گی جو بچے اسکول آنے کے قابل نہیں ہیں۔
اسی دوران انہوں نے بتایا کہ  امجد اسلام امجد اور انور مسعود صاحب نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے کئی  یتیم بچے گود لیے ہوئے  ہیں اور ان کے ماہانہ اخراجات انہوں نے اٹھا رکھے ہیں۔

لاہور میں ایک کالج بھی اسی ٹرسٹ کے زیر اہتمام چل رہا ہے جس میں پورے پاکستان سے اسی ٹرسٹ کے  سکولز میں پڑھنے والے نمایاں بچوں کو مڈل سے انٹر تک تعلیم دی جاتی ہے، اس کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہوسٹل کی سہولت دی جاتی ہے۔پاکستان کے وہ علاقے جہاں پر ہندو برادری کی تعداد زیادہ ہے وہاں پر ہندو کمیونٹی کے لیے الگ  سکول بناۓ گئے ہیں اور وہاں پر ہندو ٹیچرز ہی ان کی مذہبی تعلیم بھی دیتے ہیں۔

غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے بارے میں معلومات آپ اس لنک سے بھی حاصل کر سکتے ہیں
http://www.get.org.pk/aboutus/history-ghazali-education-trust.html

Advertisements
julia rana solicitors london

اس موقع پر مختلف  شعبوں  سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد  موجود  تھی، چیدہ چیدہ افراد میں جناب
امجد اسلام امجد
نجم ولی خان
روٹری کلب کے ممبران شاعر ادیب ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے سول انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ڈین نے بھی شرکت کی۔
قصہ مختصر اس تقریب نے جہاں میرے خیالات کافی تبدیل کیے وہاں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو دوستوں میں بھی متعارف کروایا، آخر میں عامر محمود غزالی صاحب کے بارے میں ایک ہی بات کہوں گا
” خدا کے  تو بندے ہیں ہزاروں ،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا  بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا “

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply