جوگی۔رزاق شاہد/ آخری قسط

یہ صادق فقیر کون؟
آپ نہیں جانتے؟
نہیں .
کمال ہے۔۔ صادق فقیر میرا کلاس فیلو، میرا یار میرا دوست، آج میں اسی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہوں۔ تھر کا رفیع، منگنڑ ہار تھا، گلوکار تھا، سندھی زبان و ادب میں ماسٹر کیا مٹھی میں استاد تھا اس کی گائیکی نے تو پوری دنیا میں سندھ، سندھی زبان اور تھر کے ڈنکے بجا دئیے ساری دنیا گھوما لیکن گھر، گھرانا، ڈیرہ، ٹھکانا مٹھی میں…
2015 میں اپنے بچوں کے ساتھ عمرہ کرنے گیا سڑک حادثے میں فوت ہوا، میت آئی اور مٹھی سارا پلٹ آیا جنازے میں کس کا کلمہ پڑھنے والا کس قطار میں ہے کسی کو معلوم نہیں ہندو کس صف مسلمان کس قطار میں کوئی پتا نہیں سب انسان سب سوگوار سب سُر کو سلام پیش کر رہے تھے. ہر گھر میں ماتم ہر گھر میں سوگ. ہو سکتا ہے سیاسی جنازہ بے نظیر کا بڑا ہو لیکن سُر کے راہی صادق فقیر کا جنازہ کسی سے کم نہیں تھا. دس دن سوگ. کوئی کام نہ ہوا
اس پر کٹھو جانی بولے جب قائم علی شاہ تعزیت کے لئے مٹھی آئے تو ہم نے کہا شاہ سائیں پہلے ڈگری کالج کا نام صادق فقیر کے نام پر، پھر فاتحہ. وزیر اعلی کے سیکرٹری حیران لیکن شاہ صاحب ہمارے دلوں کی تڑپ اور آنکھوں کا پیام پڑھ چکے تھے فوراً احکامات جاری کیے. ڈاکٹر شنکر نے کہا ہم ٹیلے پر  جب اسے سنتے تو پریاں اتر آتیں ہمارے دل کے کنول کھل اٹھتے۔۔ کون کہتا ہے سر میں تاثیر نہیں موسیقی میں پیار نہیں ہے۔ شرط ہے سر سچا لگایا جائے. ہمیں اس کی قبر پر لے چلیں رات ہونے والی تھی قبرستان کا دروازہ بند تھا ماما نے فون کیا ارے جلدی آئیں ہمارے سرائیکی دیس کے لوگ صادق فقیر کی زیارت کرنا چاہتے ہیں تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان تیزی سے موٹر سائیکل چلاتے آیا ۔۔اترتے ہی ماما کے پاؤں چھوئے ناراضگی معاف مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا تھوڑا دیری ہو گئی.
قبر پر حاضری دی پھول رکھے سلام کیا.
پریس کلب گئے۔۔ ڈاکٹر شنکر اور کٹھو جانی کو منتظر پایا. ملٹی میڈیا، کانفرنس روم، میٹنگ ہال، کھلے کمرے۔۔. یہ تھا مٹھی پریس کلب. یار ایسا پریس کلب تو شاہوں کے دیس میں ہوتا ہے. جانی بولے ہم نے اپنی محنت سے بنایا ہے جو سرکاری کارندہ آتا ہے اس سے فنڈز لے کر بناتے رہتے ہیں. سارے صحافی آپ جیسے کیوں نہیں ہوتے؟
کہا سارے ایسے ہی ہوتے ہیں  بس ذرا کچھ اپنی  ضرورتیں بڑھا لیتے ہیں اس لئے کبھی کبھی جھکنا پڑتا ہے انہیں.
راستے میں بحریہ دسترخوان نظر آیا ۔۔رکے اندر داخل ہوئے انچارج راشد احمد نے کہا یہاں 25 ملازم ہیں دن میں ایک ہزار رات کو 4 سے 5 سو تک لوگ کھانا کھاتے ہیں سکول کے بچے بھی آتے ہیں. کراچی سے سامان آتا ہے کوئی حد نہیں جتنا کہیں بھیج دیتے ہیں صاف باورچی خانہ، سلجھا عملہ، سٹیل کے دیگچے.. تصاویر لینے لگے تو راشد صاحب بولے تصاویر کھانے والوں کی نہ لیں. ہو سکتا ہے انہیں ناگوار گزرے.
ماما کے گھر پہنچے۔۔ دروازے کھولتے ہی کہنے لگے بھارتی ،بھاونہ، مسکان بیٹی کہاں ہو   جلدی  آؤ ۔ہمارے دوست آئے ہیں. سارنگ بیٹا چارپائی سیدھی کرنا کرسی یہاں رکھو بچوں سے باتیں کرتے ایسا محسوس ہوا رشتے خون سے نہیں مذہب سے نہیں احساس کے، انسانیت کے ہوتے ہیں سب ایسے ملے کہ سارے دن کی تھکن  اتر گئی، بچیاں اپنی پڑھائی، پسند ،مستقبل اور اپنے والدین کے بارے میں جس چاؤ سے بولیں رشک آیا کہ ماما کے جذبوں کے پیچھے ان معصوم دلوں کی دھڑکنوں کا ساتھ ہے کافی دیر تک بیٹھے رہے ماما کبھی پکوڑے کبھی پاپڑی تو کبھی چائے لا رہے ہیں تھکاوٹ اکتاہٹ کا شائبہ تک نہیں.. دوبارہ جلد ملنے کے وعدے پر اجازت ملی. دروازے پر رکے ماما بولا یہ مکان صادق فقیر نے بنوانے میں بہت مدد کی حکومت سے پراویڈنٹ فنڈ سے پانچ لاکھ روپے کی درخواست دی کافی مدت بعد ڈیڑھ لاکھ روپے منظور ہوئے..
صادق نے کہا اداس نہیں ہونا ،پھر اس کی مدد سے بنانے میں کامیاب ہوا اور یہاں اس نے کہا تھا اوطاق بنائیں گے…. اور…. لیکن ظالم موت نے ہمارا یار چھین لیا… چاند کی دھندلکے میں ماما کے دو آنسو صادق کی بارگاہ میں حاضری کے لئے مقام اوطاق پر جا گرے. مٹھی کی رات بارہویں کا چاند ٹھنڈی ہوا اور نیچے سارا شہر روشنیوں میں نہایا ہوا دیوالی کے لئے سجایا ہوا ….
دارالحکومتوں کا دامن کوہ اس رات کے ایک جلوے پر قربان.. ڈاکٹر شنکر بولے ایسی راتوں میں مٹھی کے اسی ٹیلے پر صادق سر لگاتا اور آپ کا دوست شرجیل بانسری بجاتا تو پورے مٹھی پر نور اتر آتا اور وہ سماں ہوتا جس کے بارے میں ناظر نے کہا تھا کہ ہر اترا ہے ہر جا جوگی. 

دوسری قسط کا لنک

https://www.mukaalma.com/15868

 

Facebook Comments

رزاق شاہد
رزاق شاہد کی تحاریر انکا بہترین تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply