نجانے تبدیلی مجھے ہی کیوں نظر آتی ہے، حالانکہ ان دنوں میری حالت یہ ہے کہ بیوی کے علاوہ کچھ بھی بدلنے کو جی نہیں کرتا ۔ ٹی وی کا چینل بدلنا بھی مشکل لگتا ہے ۔
آج پندرہ منٹ تک ریموٹ پکڑے سوچتا رہا کہ میں گالیاں کس کو دے رہا تھا۔۔۔؟
وہ تو فیضان نے حیران ہوکر پوچھا
پاپا تقریر سن رہے ہو۔۔۔۔۔؟
آج دن ہی عجیب تھا، غریب تو خیر سال بھر سے ہر دن ہے ۔میری کنزیومر کورٹ میں ایک ہزار چار سو بیسویں تاریخ تھی جو ہر بار اس امید پہ دی جاتی ہے کہ کبھی نہ کبھی تو جج تعینات ہوگا ۔۔۔۔میری تو خواہش ہے کہ ارشد ملک کو ہی لگا دیں ۔میں اوکھا سوکھا ہوکر یو ٹیوب سے ویڈیو ڈاؤنلوڈ کر لوں گا ۔۔تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
صبح اٹھ کر دانت دھوئے اور منہ کو اچھی طرح مانجھا کہ ڈیٹ پہ جانا ہے۔گھر سے نکلا تو رستے بھر یہ وہم رہا کہ قمیض کریم کلر کی ہے اور شلواربیچ کلر کی لگ رہی ہے ۔۔؟آخر بیگم کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہم نہیں تھا ۔۔۔
شکر اس بات کا ہے کہ عینک کی عدم موجودگی میں زنانہ مردانہ کمبی نیشن نہیں کر بیٹھا۔ورنہ فیشن بن جاتا ۔۔
چاند گاڑی سے سیالکوٹی پھاٹک پہ اترا تو چھ روز پرانی بارش کا کیچڑ ہر طرف تھا ۔۔سیالکوٹی پھاٹک کی طرف بڑھا تو حیرتوں میں گم ہوگیا،
میں نے پہلی بار دیکھا ۔۔
میرے آگے ایک لڑکی عبایہ میں پینسل ہیل والا جوتا پہنے چل رہی تھی ۔۔یقین کریں کوئی چار انچ ہیل ہوگی ۔اور ذرا سا بھی نہیں لڑکھڑائی حتی کہ ریلوے لائن کے بے ترتیب پتھر۔ریلو ے ٹریک کی واہیات کھدائی بھی پائے ثبات کو ڈگمگا نہ سکی۔
“یااللہ یہ گوجرانوالہ ہی ہے “؟
گوجرانوالہ اورنزاکت۔۔۔۔
تین مختلف چیزیں ہیں ۔۔۔درمیان میں ستر کلومیٹر خالی جگہ آتی ہے اس لئے تین کہا ہے ۔
یہ سب تو لاہورنوں کے چونچلے تھے، جو یہاں قربِ قیامت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں۔
لاہورن موٹرسائیکل پہ دو بچوں کیساتھ شوہر کے پیچھے بیٹھی بھی ایسے لگتی ہے جیسے کزن کے ساتھ ڈیٹ پہ جارہی ہو۔اکیلی پیچھے بیٹھی ہو تو لگتا ہے ہنڈا والوں نے سیٹ کے ساتھ کس کر بھیجی ہے ،مجال ہے جو کسی سہارے کی محتاج ہو ۔
اور گوجرانوالہ کی معشوق بھی ہو تو عاشق کو “تنی”سے یوں پکڑا ہوتا ہے کہ معدے میں صبح کا کھایا نان بھی خود کو نیب کی حراست میں سمجھنے لگتا ہے ۔کسی حادثے سے پہلے ہی یہ گھبرا کر اس طرح گرتی ہیں کہ چوٹ لگے نہ لگے ڈرائیور کی دائیں جیب یا، ازاربند گرتے گرتے ساتھ لیجاتی ہیں ۔
اب یہ اس غریب کی قسمت کہ معیشت بچتی ہے کہ عزت ۔۔؟
لاھورن کتنی بھی گئی گزری ہو، لاہور کی ہی لگتی ہے ۔اور گوجرانوالہ کی خاتون کتنی بھی اسمارٹ کیوں نہ ہو لاہور کی نہیں لگتی ،شادی کے تین سال بعد جو کلٹس خریدی وہ پسنجر سائیڈ سے جھکی جھکی رہتی تھی۔میں کمپنی فالٹ سمجھتا رہا۔۔ورکشاپ والے نے بتایا کہ سرکار اگر گاڑی بیلنس کرنی ہے تو وزن بڑھائیں ۔شکر ہے اب ٹھیک ہے ۔
دو چیزیں اسے لاہور سے ممتاز رکھتی ہیں ، ایک چال اور دوسری خوراک ۔۔۔
یہاں دو خواتین ایک ساتھ چل رہی ہوں تو اتنا راستہ بے وجہ گھیرتی ہیں جتنی جگہ سے مزدا ٹرک گزر جاتا ہے ۔اگر آپ کسی سواری پہ ان کے عقب میں ہیں تو” ہارن دو راستہ لو “والا اصول اپنائیں ۔گوکہ یہ کہیں لکھا نہیں ہوتا ۔۔۔
اور اگر آپ پیدل ہیں تو کھانسی سے بھی ہارن کا کام لے سکتے ہیں ۔
یہ اتنا نہیں کھاتیں جتنا وہ ایک ہی بار پلیٹ میں ڈال لیتی ہیں ۔یہ وہ بھی کھاجاتی ہیں جو ان کے چار بچوں نے بالترتیب اپنی پلیٹوں میں چھوڑا ہوتا ہے ۔۔لاہورن کو ڈیٹ کی آفر کا مطلب شاپنگ ہے ،جوانی میں یہاں ایک بار اپنی محبوبہ کو آؤٹنگ کی دعوت دی تو کہنے لگی “اب کیا فائدہ؟ اب تو میں نے روٹی کھا لی ہے “۔۔۔
لیکن آج اس لڑکی نے میرے سارے نظریات بدل دئیے ۔ وہ چار انچ کی ہیل نہیں تھی چالیس سالوں کا فرق تھا ۔۔۔جو دکھائی دیا ۔
تبدیلی کا یہ سفر خوش آئند ہے ۔
امید ہے کہ یہ لڑکی KFC میں دس فرائی پیس کا ٹب اور وڈی پیپسی پینے کے بعد گھر جاکر یہ نہیں کہتی ہوگی کہ
“آج پکایا کیا ہے “۔۔۔۔؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں