چوروں کا راج۔راجہ محمد احسان

پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جس کے دورِ حکومت میں سلطنت میں بہت چوریاں ہونا شروع ہو گئیں اور چوروں کا کوئی سراغ بھی نہیں ملتا تھا. بادشاہ کو بہت شکایات آئیں اور اس نے چوریوں کے تدارک کے لیے بہت کوششیں کیں  مگر چوروں کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔

ایک دن بادشاہ رات کے وقت بھیس بدل کر اکیلے ہی گشت کو نکل گیا آبادی سے دور ویرانے میں اسے چار آدمی بیٹھے دکھائی دیے، بادشاہ کو وہ مشکوک لگے اس نے سوچا ان کے پاس چل کر تفتیش کی جائے کہ وہ اتنی رات گئے اس ویرانے میں کیا کر رہے ہیں؟.
بادشاہ کو قریب آتے دیکھ کر ان میں سے ایک شخص نے بادشاہ کو للکارا کہ تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو

بادشاہ نے کہا میں تو ایک چور ہوں تم کون ہو؟

جواباً انہوں نے کہا کہ وہ بھی چور ہیں، پھر بادشاہ سے پوچھنے لگے کہ تمھاری کیا صفت ہے؟

بادشاہ نے پوچھا کہ کیا مطلب ہے تمھارا۔۔۔. انہوں نے کہا کہ چور میں کوئی نہ کوئی صفت ہوتی ہے تمھاری کیا صفت ہے.

بادشاہ نے کہا کہ پہلے تم لوگ اپنی اپنی صفت بتاؤ۔۔۔

. ان میں سے ایک نے بتایا کہ میں جس شخص کو ایک بار دیکھ لوں پھر چاہے وہ کوئی بھی بھیس بدل لے کتنی ہی مدت کیوں نہ گزر جائے میں اسے پہچان لیتا ہوں.۔

. دوسرے نے کہا کہ میں خزانے کی بو سونگھ لیتا ہوں وہ کہیں بھی چھپایا گیا ہو میں سونگھ کر اس تک پہنچ جاتا ہوں۔

. تیسرے نے کہا کہ میں کتے کی بولی سمجھ لیتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

چوتھے نے کہا کہ کیسی ہی مشکل جگہ دیوار پہاڑی فصیل کیوں نہ ہو میں خود بھی چڑھ اور اتر جاتا ہوں اور اپنے ساتھیوں کو بھی چڑھا اور اتار لیتا ہوں ،

اب تم بتاؤ تم میں کیا صفت ہے۔۔۔۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص سولی پہ بھی چڑھ رہا ہو تو میں اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیروں تو اس کی سزا معاف کر دی جاتی ہے.

چوروں کو بادشاہ کی یہ خوبی بہت پسند آئی انہوں نے کہا کہ شاہی خزانہ لوٹنے سے ہمیں صرف بادشاہ کی سزا کا خوف روک رہا تھا اب تم آ گئے ہو تو چلو مل کر شاہی خزانہ لوٹتے ہیں پکڑے گئے تو تم داڑھی پہ ہاتھ پھیر کر ہمیں بچا لینا.

بادشاہ ان کے ساتھ قلعے کی جانب چل دیا، جب قلعے کے پاس پہنچے تو ایک کتا بھونکا سب نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ کہہ رہا ہے کہ تمھارے ساتھ بادشاہ بھی ہے۔ سب نے اس کا مذاق اڑایا کہ ہم چوروں میں بادشاہ کہاں سے آ گیا تم سٹھیا گئے ہو، وہ کہتا کہ کتا یہی کہہ رہا ہے تم بیشک نہ مانو. انہوں نے اس کی بات نہیں مانی۔۔۔ آگے قلعے کی فصیل آئی تو ان کا ساتھی خود اوپر چڑھ گیا اور باقی چاروں کو بھی چڑھا لیا پھر نیچے اتر کر ان کے ساتھی نے خزانے کی بو سونگھ کر اپنے ساتھیوں کو اس کا پتہ بتایا ۔. یوں وہ خزانہ لوٹ کر فرار ہو گئے اور قلعے میں کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ راستے میں بادشاہ نے چوروں سے کہا کہ اب تک بادشاہ کو خبر ہو چکی ہو گی اور اس کی فوجیں ہمارے تعاقب میں نکل چکی ہوں گی تم سب مجھے اپنا اپنا پتہ لکھواؤ ہم خزانے کو یہیں دفن کرتے ہیں جب حالات بہتر ہو جائیں گے تو میں تمھیں بلوا لوں گا اور ہم اپنا اپنا حصہ بانٹ لیں گے، سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور اپنا اپنا پتہ دیا اور خزانے کو دفنا کر چلے گئے۔

اگلے دن بادشاہ نے اپنی فوج بھیج کر خزانہ نکلوا کر محل میں رکھوایا اور سب کو گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کرنے کا کہا، پتے اس کے پاس پہلے سے ہی موجود تھے، فوج گئی  اور سب کو گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا، بادشاہ پر نظر پڑتے ہی ان میں سے ایک ساتھی نے کہا کہ یہ تو وہی ہمارا ساتھی پانچواں چور ہے مگر باقی ماننے کو تیار نہ ہوئے کہ وہ تو چور تھا بادشاہ کیسے ہو سکتا ہے،
بادشاہ ایسے خطرناک چوروں کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس نے چاروں کی پھانسی کا حکم دے دیا۔ سپاہی انھیں پکڑ کر لے جانے لگے تو چہرہ شناس چور سے رہا نہ گیا اور اس نے مڑ کر کہا، بادشاہو اب داڑھی پر ہاتھ پھیر بھی دو کہ ہماری جان چھوٹے، بادشاہ کی ہنسی نکل گئی  اور اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر ان کی جاں بخشی کر دی اور ان سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ چوری نہیں کریں گے.

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ ایسا ہی حال ہمارے ملک کے لٹیروں کا ہے یہ بھی سب صفتیں رکھنے والے چور مل کر چور پارٹی بنا لیتے ہیں کوئی چور یہ جانتا ہے کہ قانونی چارہ جوئیوں سے کیسے بچنا ہے کوئی جانتا ہے کہ خزانے کو کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے لوٹنا ہے، کوئی عوام کی بولی سمجھتا ہے اور انھیں کیسے الو بنانا ہے خوب جانتا ہے تو کوئی جانتا ہے کہ ملکی خزانہ سوئیزر لینڈ یا پانامہ دفنانا ہے ، ایسی خطرناک خوبیوں والے چور سیاسی پارٹیاں بنا کر اپنا ایک چور برسرِ اقتدار لے آتے ہیں اور اگر کہیں یہ چور پھنسنے لگے تو کبھی استثنیٰ کے نام پر تو کبھی صدارتی اختیارات کے نام پر داڑھی پہ ہاتھ پھیر کر باقی چور بھائیوں کو بچا لیتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اصلاً عادل بادشاہ تھا اور چور کے بہروپ میں تھا اور اب اصلاً چور بادشاہ کے بہروپ میں آنے لگے ہیں اور ہماری بادشاہ عوام خواب غفلت کے مزلے لوٹ رہی ہے کون پکڑے گا اتنی اعلیٰ خوبیوں کے حامل چوروں کو جہاں عدلیہ انتظامیہ مقننہ اشرافیہ میڈیا صحافت وکالت سب چور ہوں ، چور بھی چور ، محافظ بھی چور !

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے