ادبی تھیوری’ ضرورت اور اہمیت۔۔اشرف لون

ادب کی بے شمار تعریفیں کی گئی ہیں۔ ادب یقیناً  حظ پہنچانے کا ذریعہ ہے لیکن اگر اس میں زندگی کی رمق اور تنقیدحیات نہ ہو تو ایسا ادب جلد ہی طاق نسیاں بن جاتا ہے۔ اتنی بات تو طے ہے کہ ادب میں زیادہ اہمیت زبان کے تخلیقی استعمال کی ہے۔ادب لفظوں کی ایسی ترتیب ہے جو ہمارے سامنے ڈرامائی انداز میں کہانی اور صورت حال پیش کرتا ہے اس میں جذبات اور خیالات کی بڑی اہمیت ہے۔ادب سے متعلق یا اس کی معنویت کو مختلف مفکروں اور نقادوں نے مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔جان پال سارتر کے نزدیک ادب کا سب سے بلند اور صحیح نظر یہ ہے کہ ادیب دنیا کو زیادہ سے زیادہ آزادیوں سے باور کرانے کے لیے لکھے۔آزادی ایک ایسا جذبہ ہے جسے موت نہیں آتی۔بہرحال ادب سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے اور یہ زندگی کی تنقید بھی ہوتا ہے۔

1920ء تک ادب کو سمجھانے کی مختلف تھیوریاں سامنے آئیں جنہوں نے ادب کو مختلف زاویوں سے سمجھنے پر زور دیا۔ان میں زیادہ تر تھیوریوں کا تعلق مابعد جدیدیت سے ہے۔ان تھیوریوں میں ردتشکیل،ساختیات،پس ساختیات،تانیثیت اور مابعد نوآبادیاتی نظریہ قابل ذکر ہیں۔بنیادی طور پر ان تھیوریوں کا مقصد ادب کو مختلف زاویوں سے جانچنا تھا اور یقیناً  ان تھیوریوں نے ادب کو سمجھنے کے مختلف در وا کیے اور کلاسیکی اور جدید ادب کی تفیہم کی نئی راہیں کھولی  ہیں۔
ادبی تھیوری کیا ہے۔اس سوال کا آسان جواب یہی ہے کہ ادبی تھیوری خیالات اور قوائد کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کا استعمال ہم ادب کے عملی مطالعے میں کرتے ہیں۔ادبی تھیوری سے کوئی ادبی تحریر مراد نہیں بلکہ ایسے نظریات جو ادب میں پوشیدہ معنی کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ادبی تھیوری ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم ادب کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں، جب ادبی تھیوری کو بیشتر یونیورسٹیوں کے نصاب میں شام کیا گیا ہے، سب ادبی نقاد اس بات پر متفق ہیں  کہ ادب کا کوئی بھی ڈسکورس ادبی تھیوری کے بغیر ممکن نہیں اور یہ کہ ادبی تھیوری کی ضرورت تب تک رہے گی جب تک ادب لکھا جائے گا۔ادبی تھیوری کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف ہمیں جدید ادب بلکہ کلاسیکی ادب کو نئے اور عصری تناضر میں بھی سمجھنے میں رہنمائی کرتی ہے۔اس نے ہمیں میرؔ، غالب،مومن،فیضؔ،اقبالؔ،منٹو، بیدی،پریم چند کو نئے سرے سے پڑھنے اور سمجھنے پر اکسایا ہے۔ظاہر ہے غالبؔ یا میرؔ کی معنویت ہمیشہ برقرار رہے گی لیکن ادبی تھیوری عصری تناظر میں اس معنویت کا سراغ لگاتی ہے اورتنقید کے لیے وہ آلات مہیا کرتی ہے جو اس معنویت کا پتہ لگائے۔

جب کوئی نقاد کسی بھی ادبی تھیوری کے ذریعے کسی فن پارے کو جانچتا ہے تو وہ ذاتی تاثرات سے ہٹ کر منطقی انداز میں اور دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرتا ہے۔اس کے سامنے مسئلہ یہ نہیں کہ میر ؔ اور غالب یا منٹو اور پریم چند کو کون پسند کرتا ہے یا ناپسند بلکہ اس کا سروکاراپنے وسیلے یا تھیوری سے ہوتا ہے اور یہاں پر وہ انہیں آلات پر انحصار کرتا ہے جو تھیوری اسے عطا کرتی ہے۔وہ اپنے فیصلے کسی مخصوص تھیوری کا سہارا لے کر سناتا ہے۔ایسا نہیں کہ سب اس کے فیصلے سے متفق ہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جس تھیوری کے ذریعے وہ یہ فیصلہ سناتا ہے اس میں اس بات کا خیال رکھا گیاہوکہ اس میں کتنی منطقیت اور معنویت ہے۔

ادبی تھیوری ادب کا عرفان عطا کرتی ہے اور یہی وہ عرفان ہے جس سے ہم تخلیق کی ماہیت کو سمجھتے ہیں۔تخلیق میں پوشیدہ معنی اور زبان کا استعمال اور اس زبان کے پیچھے ثقافتی عوامل کیا ہیں،ادبی تھیوری اس سے بحث کرتی ہے۔ادب میں ہزار معنی پوشیدہ ہیں جس کا ہمیں مابعد جدیدیت کے عہد میں سامنے آنے والی تھیوریوں سے پتا چلا۔تھیوری ان پوشیدہ معنی کی تہہ تک جاتی ہے اور انہیں کھنگالتی ہے اور پھر فن پارے کا مقام متعین کرتی ہے۔مابعد جدیدیت کے اہم نقاد گوپی چند نارنگ تھیوری کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”نظریہ (تھیوری) ادب فہمی ہے۔اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ادب کیا ہے،اچھا ادب  برا  کیا ہے،
ادب کی نوعیت و ماہیت کیا ہے،ادب اور زندگی میں کیا رشتہ ہے،زبان ادب میں کیوں کر جادو جگاتی ہے،
معنی آفرینی،تہہ داری جد ت و ندرت کیا ہیں،نشاط و کیف،اثر پذیری اور جمالیات کیاہیں،اقدار کیا ہیں،
اور انسان،سماج اور تہذیب میں کیا رشتہ ہے اور ادب میں ان پُر اثرار رشتوں کی نبض کس طرح ڈوبتی
ابھرتی اور جمالیاتی فن پارہ بنتی ہے تو ان امور کی افہام و تفہیم یا ادبی تربیت کی کوئی بھی کوشش دراصل نظریہ
فہمی یا نظریہ سازی(تھیوری) کی کوشش ہوگی اور تخلیقی عمل کی ذمہ داریوں کی آگہی اور ادب شناسی کے لیے
اس کی اہمیت کم و بیش ویسی ہوگی جیسے زندہ رہنے کے سانس لینے کی۔“

گوپی چند نارنگ کی ان توضیحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عصری تناظر میں ادب کی معنویت کو اجاگر کرنے میں تھیوری کی کتنی اہمیت ہے اور یہ کہ تھیوری نے ادب کو سمجھنے کے کیسے در وا کیے ہیں۔
ادبی تھیوری سے ہم مصنف اور اُس کے تحریر سے رشتے کو جانتے ہیں۔جیسا کہ ادب کی نفسیاتی تنقیدی تھیوری میں ہوتا ہے۔کہ ادب کے نفسیاتی مطالعے میں ہم مصنف کی زندگی تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور پھر اُس کی تحریروں کا اسی تناظر میں مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کون سے نفسیاتی محرکات تھے جنہوں نے ادیب یا شاعر کو کوئی تحریر لکھنے پر مجبور کیا۔دوسرے یہ کہ نفسیاتی مطالعے میں ادیب کی شخصیت کی بھی اہمیت ہے اور ساتھ ہی ایسے مطالعے میں فن پارے کے کسی کردار کا بھی نفسیاتی تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

ادبی تھیوری نسل،طبقہ اور جنس کے حوالے سے ادب کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔یہاں ہم مثال میں نوآبادیاتی عہد، نوآبادیات یا ان سے متعلق جو ادب لکھا اُس کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔تھیوری اس سے بحث کرتی ہے کہ نوآبادیاتی عہد کے دوران میں جو ادب لکھا گیا اُس میں ایشیا یا افریقہ کو کس طرح پیش کیا گیا یا کس طرح مغربی مصنفوں اور ادیبوں نے یہاں کے عوام کو رزیل اور نچلے درجے کا شہری بناکر پیش کیا اور اس طرح یہاں برطانوی حکومت یا استعماریت کا جواز پیش کیا اور یہاں ہمیں یہ نہیں  بھولنا چاہیے کہ آج بھی ایسے ادیبوں کی کمی نہیں جو یہ کام امریکہ کے ایشیائی یا افریقی ملکوں پر اُس کے تسلط کے لیے کررہے ہیں۔ادبی تھیوری اس چیز کا پتا لگاتی ہے کہ مصنف کا اس نوآبادیاتی یا سامراجیت کو استحکام بخشنے میں کیا رول رہا ہے۔ یہ ادب میں طبقاتی کشمکش کا بھی پتہ  لگاتی ہے اور نچلے طبقات اور حاشیاتی طبقات کی ادب میں سحیح عکاسی پر بھی زور دیتی ہے۔اسی طرح ادبی تھیوری (تانیثیت) یہ بھی دیکھتی ہے کہ ادب میں آج تک عورت اور ان کے مسائل کی عکاسی کن کن زاویوں سے ہوئی ہے اور کیاں ہم نے عورت اور اُس کے مسائل کا صحیح خاکہ پیش کیا ہے۔

ادبی تھیوری کسی بھی تحریر کی تاریخی اہمیت اور اس کو تاریخی تناظر میں سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ ادب اور تاریخ کے ازسر نو رشتے پر غور کرتی ہے۔جیسا کی نئی تاریخیت کسی تحریر کو اس ثقافتی حوالے سے سمجھنے پر اسرار کرتی ہے۔نئی تاریخیت ادب کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کی بھی قائل ہے اور یہ تاریخ کو ادب اور دوسرے فنون کے ذریعے سے بھی سمجھنے پر اسرار کرتی ہے۔
ادبی تھیوری تخلیق میں زبان اور اس کے تفاعل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔تھیوری کا یہ بھی کام ہے کہ وہ متن میں موجود تہوں کو دیکھ سکے اور معنی کی ہر پرت کے نیچے موجود دوسری پرت تک رسائی حاصل کرسکے۔زبان کس ثقافت کی نمائندگی کر رہی ہے اور کسی بھی کردار کی زبان سے ہم اُس کی نفسیات یا اس کے اندرون کا پتہ لگاتے ہیں۔تحریر   کے پیچھے کون سے ثقافتی،سیاسی اور تاریخی عوامل کارفرما ہے تھیوری ان سے بحث کرتی ہے اور کس طرح زبان یا تحریر ایک نئی دنیا کو خلق کرتی ہے اور اُس کا حقیقی دنیا سے کیا اور کیسا تعلق ہوتا ہے۔مابعد نوآبادیاتی مطالعے میں زبان یا تحریر نے بنیادی اہمیت اختیار کی ہے۔

جیسا کہ مابعد نوآبادیاتی مطالعے کے مطابق تحریر اور قاری کے بیچ رشتہ نو آبادکار اور نوآبادی کے بیچ کا جیسا رشتہ ہے۔مشہور ادبی نقاد و دانشورایڈ ورڈ سعید نے ہمیں بتایا کہ کس طرح تحریر کی سیاسی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت ہوتی ہے اور قوموں کی تاریخ میں یہ(زبان یا تحریر) کیا رول ادا کرتی ہے۔ادب کے ثقافتی،سیاسی اور تاریخی مطالعے کی اہمیت پر زور مابعد جدید عہد میں بڑھ گیا۔اور اس دوران میں دریدا کی ردتشکیل،روالاں بارتھ کی مصنف کی موت(متن کی اہمیت) اور ایڈورڈ سعید کی مابعد نوآبادیاتی مطالعے کے نظریات سامنے آئے۔ان نظریات نے ادب کے سابقہ نظریات کو اس شدت کے ساتھ چلینج کیا جس کاا ثر آج بھی باقی ہے اور یہ ایسے نظریات ہیں جن کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی اور مستقبل میں ان کی اہمیت یقینی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ادب کو سمجھنے میں تھیوری کی اہمیت مسلم ہے اور یہ تھیوری ہی ہے جس سے ہم تنقیدی آلات لیتے ہیں اور پھر ان آلات کی مدد سے ہم کسی بھی فن پارے کو جانچتے ہیں اور اُ س میں پوشیدہ معنی عام قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ تھیوری کے بغیر شاید ہم ادب یا کسی بھی تحریر کے اتنے معنی تک رسائی حاصل نہ کرسکے جو ادب اور اُس میں استعمال ہونے والی زبان میں چھپے ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ادبی تھیوری’ ضرورت اور اہمیت۔۔اشرف لون

  1. کہا جاتا ہے کہ اردو کا دامن معانی کے لحاظ سے تنگ ہے ایسا کیوں ہے؟ یہاں بات ادب کی ہورہی ہے اور ڈسکورس کا لفظ بےدھڑک استعمال ہوا ہے جس کے معنی اردو میں ہیں ہی نہیں ہر کسی نے تشریح کی ہے اور من کے معانی بیان کئے ہیں۔ آپ بتائیں ڈسکورس کے معنی کیا ہیں؟

  2. ایسا بیان جس کے پس پردہ سیاسی نقطہ نظر پوشیدہ ہو،ڈسکورس ہے۔مزید اس پر وضاحت ہم ایک مضمون لکھ کر پیش کریں۔

Leave a Reply