ن لیگ کے داؤ پیچ اور اس کا تحلیل ہوتا ووٹ بینک۔۔ثقلین امام

نواز شریف کی اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن پر گرفت بظاہر مضبوط سے مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ وہ نااہل کیے جانے کے باوجود اپنی جماعت کے دوبارہ سربراہ منتخب ہو چکے ہیں۔ اقتدار سے الگ ہو جانے کے باوجود وہ تقریباً ایک وزیر اعظم جیسی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ان کی جماعت کا، یا ان کا نامزد کیا ہوا وزیراعظم، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے بیٹھا ہے۔

لیکن ان کی اصل مضبوطی سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ان کی کامیابی کو سمجھا جائے گا۔ فی الحال تو ان کے ایک بڑے حامی مسلم لیگ ن کو دھچکا دینے والے تمام واقعات کو اگلے برس کے سینیٹ کے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں۔ یعنی ساری سازشیں مسلم لیگ کی سینیٹ کے سنہ 2018 کے انتحابات میں متوقع کامیابی کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی نواز شریف کو اس کے سیاسی زوال سے بچا سکے گی۔

سینیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق سینیٹ میں اس وقت مسلم لیگ ن کے 26 ارکان ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے 27 ارکان۔ اگر دیگر جماعتوں کے ارکان کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن اس وقت بھی سینیٹ میں اکثریت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ایم کیو ایم کے ارکان نے حالیہ قانون سازی کے دوران ن لیگ کا ساتھ دیا تھا۔ اس لحاظ سے سینیٹ میں ایم کیو ایم کے ارکان کو مسلم لیگ کی حامی جماعت سمجھا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے 6 ارکان، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 5 ارکان، نیشنل پارٹی کے 3 ارکان، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے 3 ارکان، بلوچستان نیشنل پارٹی (ایم) کا ایک رکن اور بلوچستان نیشنل پارٹی (اے) کے دو ارکان بھی مسلم لیگ ن کے حامی ارکان سمجھے جاسکتے ہیں۔ ان جماعتوں کے ارکان کسی نہ کسی سطح پر مسلم لیگ ن کی حکومت میں یا تو براہ راست شریک ہیں یا بالواسطہ طور پر اس حکومت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے 10 ارکان عموماً وفاقی حکومت کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔

ان اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر اگر مسلم لیگ کی سینیٹ میں طاقت کے بارے میں ایک فراخدلانہ تجزیہ کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ حکمران جماعت کے پاس اس وقت بھی 104 کے ایوان میں 60 سے زیادہ ارکان کی حمایت موجود ہے۔ ان میں مسلم لیگ ن کے اپنے چھبیس ارکان بھی شامل ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان 60 سے زیادہ ارکان میں سے کچھ کو تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سے توڑ سکتی ہے تاہم پھر بھی مسلم لیگ ن اور اس کے حامیوں کی سینیٹ میں اکثریت برقرار رہے گی۔

اب اگر سنہ 2018 میں عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے انتخابات کے ممکنہ نتائج کو دیکھا جائے تو بعض تجزیوں کے مطابق مسلم لیگ ن کی نشستیں 26 سے بڑھ کر 30 ہوجائیں گیں جبکہ مسلم لیگ کے حامی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تعداد 26 سے بڑھ کر 35 ہو جائے گی۔ دونوں صورتوں میں مسلم لیگ کے لیے عملاً حالات جوں کے توں رہیں گے البتہ پیپلز پارٹی سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت کے اعزاز سے محروم ہو جائے گی اور عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد دونوں کے لیے بالترتیب 2 یا صرف ایک ایک رہ جائے۔

پاکستان کے آئین کے مطابق سینیٹ میں کسی جماعت کی اکثریت سے نہ بجٹ کی منظوری پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے اور نہ ہی حکومت سازی پر۔ سینیٹ کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنے چار برس کے دور اقتدار میں کتنی مرتبہ سینیٹ تشریف لائے۔ اب اگر فرض کریں کہ مسلم لیگ ن سنہ 2018 کے سینیٹ کے انتخابات میں اپنی عددی طاقت 26 سے 35 بھی کرلیتی ہے تو پھر بھی اسے کوئی زمین ہلا دینے والی کامیابی نہیں کہا جا سکے گا۔

ان حالات میں دیکھنا پڑے گا کہ پھر مسلم لیگ ن کے حامی تجزیہ کار اور لیڈرسینیٹ کے انتخابات کو اپنی سیاسی لڑائی کے لیے ایک بڑا سنگ میل کیوں قرار دے رہے ہیں اور یہ کہ کیوں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ مسلم لیگ کو سینیٹ میں کامیابی حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ کیا سینیٹ کے انتخابات مسلم لیگ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں؟

اب ذرا حالات کا ایک اور رخ دیکھتے ہیں۔ پاناما مقدمے سے لیکر ختم نبوت کے دھرنے تک اور اب ماڈل ٹاؤن سانحے کی نجفی رپورٹ کا اجرا۔ یہ وہ سنگ میل ہیں جو یکے بعد دیگرے حکمران جماعت کی سیاسی ساکھ کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر دھچکا کہے جا سکتے ہیں۔ حکمران جماعت اشاروں اور کنائیوں میں اپنے اوپر ان سیاسی حملوں کی ذمہ داری ان پاکستان کی غیر مرئی قوتوں پر عائد کر رہی ہے جنھیں عرف عام میں اسٹیبلشمینٹ کہا جاتا، اور کچھ تجزیہ کار فوج کہتے ہیں۔

مثال کے طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جب پاناما مقدمے کے فیصلے میں نااہل کیا گیا تو انھوں نے یہ سوال اٹھا کر کہ ’مجھے کیوں نکالا؟‘ اس غیر مرئی قوت کی شازش کو بے نقاب کرنے کوشش کی۔ انھوں نے بار بار اشارہ دیا کہ اُنھیں قوتوں نے اِنھیں نکالا جنھوں نے پچھلے وزرائے اعظم کو نکالا تھا۔ اور ظاہر ہے اس طرح انھوں نے اپنے نکالے جانے کا الزام اشاروں میں ماضی اور حال کی قوت فوج پر عائد کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم انھوں نے جلد ہی اپنی توپوں کا رخ بدلہ اور فوج کے بجائے عدلیہ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ پھر انھوں نے بہت ہی واضح انداز میں عدلیہ پر ’بغض‘ سے بھرے فیصلے کرنے کا الزام لگایا۔ اور اب یہ دکھائی دے رہا ہے کہ نواز شریف اپنے بارے میں کرپشن کے مقدمے عدالت کے اندر لڑنے کے بجائے عدالت سے باہر لڑنے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب وہ یہ لڑائی قانون کے بجائے سیاسی اکھاڑے میں لڑیں گے۔

اسی پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ان کی یہ حکمت عملی واضح طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وہ کیوں اسٹیبلشمینٹ کو بذریعہ عدلیہ اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اب ان کی یہ کوشش ہے کہ وہ اسٹیبلشمینٹ مخالف جہموری حلقوں اور اپنے ووٹ بینک کو زیادہ سے زیادہ فعال کر سکیں جس کے نتیجے میں ایک ایسی تحریک بن سکے جو انھیں اگلے برس کے انتخابات میں کامیابی دلا سکے۔

سینیٹ کے انتخابات جب ہوں گے تو موجودہ صوبائی اسمبلیاں ان کی الیکٹورل کالجز ہوں گی۔ اس لیے جس مقبولیت کی تحریک کا ابھی ذکر ہوا ہے اس سے سینیٹ کے انتخابات پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صوبائی اسمبلیوں کے موجودہ اعداد و شمار جوں کے توں رہیں گے۔ لہٰذا اس پس منظر میں یہی نظر آتا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی کا پردہ رکھ کر مسلم لیگ ن اس وقت قومی اسمبلی کے عام اتخابات کے لیے مقبولیت کی ایک تحریک چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

غالباً مسلم لیگ کی اس حکمت عملی کو اس کے مخالفین بھی سمجھ چکے ہیں۔ اور انھوں نے اس کے مقبولیت کے گراف کو جھکانے کے لیے اس کے اپنے گھر میں جا کر حملہ کیا ہے۔ اور ان تمام حملوں کے لیے ایندھن مسلم لیگ ن نے اپنی تمام سمجھداری کے باوجود اپنے مخالفین کو مہیا کیا ہے۔ ختم نبوت کی قضیے کے بارے میں بروقت اقدام نہ کر کے وہ خود ہی اس میں پھنسے اور پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اب ماڈل ٹاؤن کے سانحے پر غیر مقبول اقدام کرکے مسلم لیگ ن اپنی مقبولیت میں مزید شگاف ڈالتی نظر آرہی ہے۔

اِدھر اُدھر کے الزامات کے ذریعے کوئی بھی حکومت 14 افراد کے پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے کے واقعے کی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ایسا ہے جس پر نواز شریف کے برادرِ خورد شہباز شریف کی پنجاب حکومت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ غالباً اسی لیے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ہے، اور تحریک انصاف کے عمران خان بھی اسی مطالبے کی حمایت میں کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔

سنہ 2016 اور 2017 میں مسلم لیگ ن کو جس طرح کے یکے بعد دیگرے سیاسی دھچکے لگے ہیں اور جس طرح وہ اپنی غلطیوں کا دفاع کر رہی ہے اور جس طرح ماضی میں اس کی حامی مذہبی جماعتیں ان سے الگ ہو کر اپنی اپنی سیاسی جماعتیں کھڑی کررہی ہیں جس سے نواز شریف کے ووٹ کے معقول حد تک کٹنے کے سنگین خدشات ہیں۔ کیا وہ اس ووٹ بینک کو اسٹیبلشمینٹ محالف نعرہ یعنی ’مجھے کیوں نکالا؟‘ بلند کر کے بچا سکیں گے؟ یا انھیں کچھ اور بھی کرنا ہوگا!

بشکریہ بی بی سی!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply