ریشم دلانِ ملتان کانفرنس میں ایک مقرر نے بیوروکریٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے قدرت اللہ شہاب کا ذکر کیا تو ان کی شاندار کتاب شہاب نامہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تین سطروں کی ایک فیس بک پوسٹ کر دی کہ شہاب نامہ نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا، آپ میں سے کس کس نے پڑھی؟ اس کے بعد اگلے دن تک اتنا مصروف رہا کہ فیس بک کھول ہی نہ سکا۔
ملتان سے واپسی پر وہ پوسٹ دیکھی تو ڈیڈھ دو ہزار کے قریب کمنٹس اور ہزاروں لائیکس آچکے تھے۔ حیرت سے کمنٹس پڑھے تو جہاں بے شمار لوگوں نے کتاب کی دل کھول کر تعریف کی، وہاں کچھ لوگوں نے سخت تنقید کی۔ بعض الزامات ایسے کمزور اور بودے تھے کہ مجھے حیرت ہوئی۔ مجھے لگا کہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا چاہیے۔ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ مصنف جس کا نام قدرت اللہ شہاب ہے، دوسری ان کی کتاب “شہاب نامہ۔ ” رد کرنے کے لئے دونوں میں سے کسی ایک میں خامیاں نکالنا ہوں گی۔
ہم پہلے مصنف کا جائزہ لیتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب، شہاب صاحب سول سروس افسر تھے۔ وہ انڈین سول سروس (Ics) کے امتحان میں کامیاب ہوئے تھے اور پاکستان بننے سے پہلے انگریز کی سول سروس میں تھے۔ آئی سی ایس ہونا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ قدرت اللہ شہاب انہی میں سے ایک تھے۔ پاکستان بننے کے بعد بیورو کریسی میں آئی سی ایس افسروں کی الگ ہی ٹور اور ٹہکا تھا۔ وہ بیوروکریسی کی اشرافیہ تھے۔ قدرت اللہ شہاب البتہ آئی سی ایس ہونے کے باوجود دیسی مزاج کے منکسر مزاج افسر تھے۔
شہاب صاحب ایک دیانت دار اور بہت اچھی ساکھ رکھنے والے بیوروکریٹ تھے، مالی معاملات میں ان کا دامن شفاف رہا۔ ان پر دوران ملازمت اور بعد میں کبھی کسی قسم کی کرپشن یا مالی بدعنوانی کا الزام تک نہیں لگا۔ ان کا لائف سٹائل بھی نہایت سادہ تھا، کم وسائل کے ساتھ سفید پوشی میں خودداری کے ساتھ گزارا کرتے رہے۔ بطور افسر انہوں نے سرکار سے کبھی کوئی پلاٹ یا زمین الاٹ نہیں کرائی۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ملازمت مکمل ہونے سے سات آٹھ سال پہلے استعفا دے دیا تھا۔ ایسا انہوں نے جنرل یحییٰ خان کے خلاف احتجاجاً کیا۔ وہ مستعفی ہو کر باہر چلے گئے تھے۔ حکومت نے تین سال تک ان کی پنشن بند رکھی۔ شہاب یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے ممبراپنی ذاتی حیثیت میں منتخب ہوچکے تھے، یہ اعزازی عہدہ تھا، بورڈ اجلاس کے دوران اخراجات کے لئے کچھ رقم ملتی تھی۔ اسے پس انداز کر کے کسی نہ کسی طرح گزارا چلاتے رہے۔ انگلینڈ کے دوردراز قصبات میں سستے گھروں میں مقیم رہے اور کسی نہ کسی طرح کام چلاتے رہے۔ برے حالات کی وجہ سے اپنی بیوی کا مناسب علاج نہ کراپائے اور وہ چالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
شہاب پر الزام ہے کہ وہ ایوب خان کو متاثر کرنے کے لئے یہ تمام حرکتیں کرتے رہے۔ یہ سب باتیں اس لئے بے بنیاد ہیں کہ قدرت اللہ شہاب ایوب خان کے آنے سے چار سال پہلے گورنر جنرل غلام محمد کے سیکرٹری مقرر ہوچکے تھے۔ سیکرٹری ٹو گورنر جنرل کے طور پر انہوں نے پہلے غلام محمد اور پھر سکندر مرزا کے ساتھ کام کیا۔ جب ایوب خان آئے تو انہوں نے بھی شہاب کو اپنے ساتھ برقرار رکھا۔ وجہ شہاب کی قابلیت، ایمانداری اور پروفیشنل ہونا تھا۔
یہ بات بڑی فضول اور بچکانہ ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے حکمران کو متاثر کرنے کے لئے مذہبی استحصال کیا یا روحانیت کو استعمال کیا۔ اس لئے کہ ایوب خان کا یہ مزاج ہی نہیں تھا، وہ ایک ماڈرن اور ترقی پسند، سیکولر ذہن والے شخص تھے جو مذہب اور مذہبی شعار اور تصوف وغیرہ پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا۔ ایسے شخص کو متاثر کرنے کے لئے تو روحانیت کے بجائے پینے پلانے کا ذوق پیدا کرنا چاہیے تھا، شہاب نے ایسا بالکل نہیں کیا۔
یہ اعتراض بھی غلط ہے کہ رائٹر گلڈ ایوب خان حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنایا گیا۔ یہ ادارہ بنیادی طور پر ادیبوں کی فلاح وبہبود کے لئے بنایا گیا تھا، اس میں اس وقت کے تقریباً تمام نامور ادیب شاعر شامل تھے۔ تمام بڑے بڑے نام اس کا حصہ رہے، اس کی سرگرمیوں میں شامل رہے۔ پہلے اجلاس میں بابائے اردو مولوی عبدالحق سے لے کر مشہور بنگالی شاعر کوی جسیم الدین اور فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی وغیرہ جیسے لیفٹ کے لوگوں سے لے کر حفیظ جالندھری، نسیم حجازی جیسے رائیٹ کے لوگوں اور غلام عباس، ڈاکٹر جمیل جالبی، شاہد احمد دہلوی، ناصر کاظمی، منیر نیازی، قتیل شفائی، احمد راہی، امیر حمزہ شنواری، شیخ ایاز، صوفی تبسم، اشفاق احمد، ہاجرہ مسرور، قرتہ العین حیدر جیسے لوگ شامل تھے۔ رائیٹ، لیفٹ کا بھرپور امتزاج تھا۔
یہ درست ہے کہ رائٹرز گلڈ کے بارے میں شکوک وشبہات رہے، اخبارات میں بھی بعض تحریریں ایسی چھپتی رہیں کہ شائد اس پلیٹ فارم کا مقصد ادیبوں کو مارشل لا حکومت کے قریب لانا ہے۔ تب تو شک وشبہ کا کوئی جواز ہوگا، آج مگر ہمارے سامنے سب کچھ واضح ہے۔ رائٹرز گلڈ آج سے تریسٹھ سال پہلے بنایا گیا تھا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ رائٹرز گلڈز کے حوالے سے جو سازشی تھیوریز تھیں، وہ سب خام اور بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ یہ ادارہ کما حقہ کام نہیں کر سکا، مگر اس کی وجہ ادیبوں کے باہمی جھگڑے اور تنازعات رہے۔
اگر شہاب صاحب روحانیت اور مذہبی تڑکے کو اپنی ذاتی ترقی اور حکمرانوں سے تعلقات کے لئے استعمال کرتے تھے تو پاکستانی تاریخ کی اس حوالے سے سب سے زیادہ مشہور حکومت جنرل ضیا کی تھی۔ ضیا نے اسلامائزیشن ہی کا نعرہ لگایا اور وہ کسی حد تک بزرگان دین اور روحانی شخصیات کے بھی قائل تھے۔ شہاب صاحب کو جنرل ضیا حکومت نے ریٹائرمنٹ کے باوجود تعلیم کے حوالے سے اہم ذمہ داری سونپنے کی پیش کش کی، شہاب نے معذرت کر لی۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے سے سات آٹھ سال پہلے استعفا دینے کے بعد قدرت اللہ شہاب نے نہایت خاموشی اور لوپروفائل انداز میں زندگی گزاری۔
اپنی پوری زندگی میں شہاب نے حکمرانوں سے غیر معمولی تعلقات اور اپنے اہم عہدے کے باوجود زمین الاٹ کرائی، کوئی فیکٹر ی اپنے نام کرائی، پرمٹ لیا نہ ہی کوئی اور فائدہ۔ تو پھر آخر شہاب پر منفی تنقید کیوں؟ تصوف میں انہیں دلچسپی تھی، مگر جن سربراہوں کے ساتھ وہ رہے، انہیں تصوف اور روحانیت میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ شہاب نے اس روحانی فیکٹر کو ان حکمرانوں پر اثرانداز ہونے کے لئے استعمال کیا ہو۔
سیکرٹری ٹو پریزیڈنٹ جیسی اہم سیٹ پر رہنے اور پھر سیکرٹری اطلاعات رہنے کے باوجود ایوب خان حکومت کے دور عروج ہی میں قدرت اللہ شہاب نے منظرعام سے ہٹنے اور لوپروفائل میں جانے کا فیصلہ کیاا ور صدر ایوب سے درخواست کر کے ہالینڈ میں سفیر بن کر چلے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایوب حکومت میڈیا پر کریک ڈائون کرنا چاہ رہی تھی، پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس جیسا بدنام زمانہ قانون تب بنایا گیا۔ شہاب نے دانستہ اس گند میں پڑنے کے بجائے ہالینڈ جیسے نسبتاً غیر اہم ملک میں سفیر بن کر جانا پسند کیا۔ وہ انگلینڈ، فرانس، امریکہ وغیرہ کا انتخاب بھی کر سکتے تھے، مگر اسکے بجائے ہالینڈکو چنا۔
یہ الزام غلط ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے مادر ملت فاطمہ جناح کی کردار کشی میں حصہ لیا یا وہ ایوب خان کی وجہ سے مادر ملت کے خلاف تھے۔ درحقیقت جب ایوب خان نے الیکشن لڑا تو شہاب پاکستان تھے ہی نہیں، وہ دو سال پہلے ہالینڈ سفیر بن کر جا چکے تھے۔ صدارتی الیکشن اور پھر بعد میں جنگ ستمبر پینسٹھ کے دوران بھی وہ ہالینڈ ہی سفارتی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ درحقیقت جب شہاب ڈپٹی کمشنر جھنگ تھے تو مادر ملت کے آنے پر انہوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اس کی تصاویر بعد میں اپنی کتاب شہاب نامہ میں بھی شامل کیں۔
شہاب تصوف کے سکول آف تھاٹ سے وابستہ تھے، ان کے بقول سلسلہ اویسیہ سے تعلق تھا۔ ممتاز مفتی نے الکھ نگری میں شہاب کے بہت سے واقعات لکھے۔ ، مفتی شہاب کو صاحب عرفان بزرگ سمجھتے تھے، شہاب نامہ کے آخری باب میں شہاب صاحب نے بھی خاصا کچھ بیان کیا ہے، ایک پراسرار بزرگ نائنٹی کا تذکرہ بھی کیا۔
اس سب کچھ کے باوجود شہاب نے پیری مریدی کی راہ اختیار نہیں کی۔ ان کا تصوف ان تک یا ان کے دو تین دوستوں تک ہی محدود رہا۔ ان کا کوئی روحانی سلسلہ ہے نہ ہی وہ کسی قسم کی محفل ذکر بپا کرتے تھے یا کوئی حلقہ انہوں نے چلانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ان کا سلسلہ ان کے بعد ختم ہوگیا۔ ان کا کوئی عرس ہوتا ہے نہ ہی کسی قسم کی اور کوئی ایکٹوٹی۔ درحقیقت ان کی قبر کا علم بھی بہت کم لوگوں کو ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا کہ شہاب کی روحانیت فراڈ تھی، وہ جھوٹ بولتے تھے، وغیرہ وغیرہ، یہ سب کہنا بدنیتی اور تعصب کے زمرے میں آئے گا۔ شہاب نے کبھی کوئی دعویٰ کیا اور نہ ہی کوئی سلسلہ چلایا نہ ہی کوئی دنیاوی فائدہ اٹھایا تو پھر اعتراض کس بات کا؟ (جاری ہے)بشکریہ 92 نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں