وسیب کا ماتم۔۔راول مشتاق قیصرانی

کوہ سلیمان،تونسہ شریف،ڈی جی خان اور راجن پور کے حالات گزشتہ ایک مہینے سے خراب ہیں۔بارشیں معمول سے زیادہ ہورہی ہیں اور پہاڑوں سے آنے والے ندی نالوں کا پانی مناسب نظام نہ ہونے اور حفاظتی بند ٹوٹنے کی وجہ سے آبادیوں میں داخل ہوا اور بہت سارے معصوم و لاچار لوگوں کے پیاروں،ان کے گھروں،ان کی فصلات اور ان کے مال و مویشی بہا کر لے گیا۔یہ سارے نقصانات ناگہانی نہیں تھے بلکہ لوگوں کو پتا تھا کہ اتنے زیادہ پانی سے نقصان ہونا ہے تو وہ ایک ہفتہ پہلے ان سارے حالات کے پیش نظر انتظامیہ،ریاست اور منتخب نمائندوں کو پکارتے رہے لیکن کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگی۔

پھر خدا کی کرنی ایسی ہوئی  کہ پانی اپنے زور و شور سے آیا اور تحصیل تونسہ شریف کی تقریباً اسّی فیصد سے زیادہ بستیوں کو نقصان پہنچایا۔ اب اتنی سطح پر نقصان ہوا تب بھی کوئی  منتخب نمائندہ عوامی دکھوں میں شامل ہوتا نظر نہیں آیا،ریاست اور ریاستی میڈیا بھی ایسے چپ تھا کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ان سب دکھوں سے بڑھ کر یہ دکھ تھا کہ پاکستان کی عام عوام خاص کر اپر پنجاب کے لوگوں نے ہمارے غموں کی داد رسی تک نہیں کی۔

حالات تھوڑا نارمل ہونے لگتے ہیں تو اوپر سے آسمان برسنا شروع ہوجاتا ہے۔ابھی پھر سے بارشوں کے بارے میں پشین گوئی  ہورہی ہے اور لوگوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت متاثرہ علاقوں میں بنا بنایا کھانا پینا اور خشک راشن کا سامان تقسیم کررہے ہیں۔

میں ادھر فیصل آباد میں آیا ہوا تھا۔فیس بک، دوست احباب اور گھر والوں سے جب حالات کا پتا چلا تو اندازہ ہوا کہ قیامت کا منظر کس طرح میرے علاقے کو لپیٹ میں لیے ہوۓ ہے۔ فیس بک پر پوسٹیں اور ویڈیوز دیکھ کر بے اختیار روتا رہا۔ ایک دوست سے بات ہوئی  تو اس نے بتایا کہ کس طرح اس کے ہمساۓ کا گھر،مال مویشی اور ساز و سامان ان گھر والوں کی آنکھوں کے سامنے بہہ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اُس بہتے گھر کے لڑکے اس بات پر رو رہے تھے کہ ان کی مرغیاں اور مرغیوں کے چھوٹے بچے پانی ان کی آنکھوں کے سامنے بہا کر لے جارہا ہے۔میں نے دوست کو بتایا کہ شکر ہے کہ میں علاقے میں نہیں تھا ورنہ ایسے مناظر دیکھ کر میرا کلیجہ باہر آ جاتا یا میرا ہارٹ فیل  ہوجاتا۔ہم حسّاس طبیعت کے لوگ ہیں ہم چیونٹی کو بھی مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ہم میں بالکل سکت نہیں ہے اس طرح کے حادثے دیکھنے کی۔لیکن رہاستی مشینری اتنی بے حس ہوچکی ہے کہ سینکڑوں لوگ پانی کے آگے اپنی زندگیاں گنوا رہے ہیں اور اُنہیں رتّی برابر فرق تک نہیں پڑ رہا ۔اگر ریاست اپنی عوام کی داد رسی نہیں کرتی تو  آخر کون ان مصیبت زدگان کی مدد کو آئے گا ؟۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply