دعا اور تڑپ

تڑپ
ہادیہ علی

Advertisements
julia rana solicitors

وہ انکھیں مانگ رہا تھا اور بادشاہ اسے دیکھ کر رُک گیا ۔
بادشاہ نے خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر ایک مانگنے والے کو دیکھا، مانگنے والا دونوں آنکھوں سے اندھا تھا ۔وہ درگاہ کے دروازے پر بیٹھا اللہ سے گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا ۔اے میرے مولا ـ ـخواجہ غریب نواز کے صدقے مجھے آنکھیں دےدو ۔بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تھا ۔وہ مذہب کے معاملے میں لوگوں سے مختلف اپروچ رکھتا تھا لہذا وہ ہر غیر معمولی حرکت اور واقعے پر رُک جاتا تھا اور ٹھیک ٹھاک گو شمالی کرتا تھا ۔اورنگریب مانگنے والے کے پاس رکا اور پوچھا تم کتنے عرصے سے مانگ رہے ہو؟ اندھے نے جواب دیا، میں پانچ سال سے اس درگاہ پر بیٹھا ہوں اور خواجہ کے صدقے اللہ سے بینائی مانگ رہا ہوں ۔ بادشاہ نے اندھے سے کہا میرا نام اورنگزیب ہے میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں پوری دنیا جانتی ہےمیں زبان سے کوئی بھی لفظ نکال دوں اس پر پورا پورا عمل کرتا ہوں ۔میں اپنے وعدے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتا ،میں خواجہ غریب نواز کے مزار پر حاضری دینے جا رہا ہوں ۔میں آدھے گھنٹے تک واپس آؤں گا ،اگر میرے آنے تک تمہاری بینائی واپس آگئی تو ٹھیک ورنہ میرے جلاد تمہارا سر اتار دیں گے ،بادشاہ نے یہ کہہ کر اپنا جلاد اندھے کے سر پر کھڑا کیا اورخود حاضری دینے اندر چلا گیا ۔اندھے پر موت کا خوف طاری ہو گیا، وہ سجدے میں گرا اور اللہ سے دردناک انداز میں دعا کرنے لگ گیا، یا باری تعالیٰ میں پانچ سال سے انکھوں کو رو رہا تھا تم نے آنکھیں نہ دیں ،اب میری جان پر بن گئی ہے تم مہربانی کر کے مجھے تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی بینائی دے دو ۔میں اس ظالم بادشاہ کے ہاتھوں بچ جاؤں گا ۔ وہ گڑگڑاتا تھا اور دعا کرتا تھا ۔گڑگڑانے کے اس عمل میں اُس کا جسم جیسے ساکت ہو گیا، پورا وجود دعا بن گیا۔ اسکی تمام نسیں اللہ تعالی سے التجا کر رہی تھیں ۔ اسکی التجا اللہ تک پہنچ گئی اور اسکے دماغ میں روشنی کا چھناکا ہوا اور بینائی لوٹ آئی ۔انکھیں کھولیں تو خواجہ کا مزار نظر آیا، قہقہ لگایا اور سجدے میں گر گیا ۔بادشاہ واپس آیا تو اندھے کو قہقہے لگاتے دیکھا، بادشاہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا، تم پانچ سال سے دعا کر رہے تھے لیکن دعا تمہاری لفظوں تک محدود تھی تم چند آیتیں دہراتے تھے تڑپ نہیں تھی ۔میری قتل کی دھمکی سے تمہاری دعا میں تڑپ پیدا ہو گئی اور تم نے رب کائنات کو متوجہ کر لیا ۔ اورنگزیب نے کہا تم لفظوں سے دس سال بھی مانگتے رہتے بینائی نہ ملتی ۔کیونکہ اللہ تعالی کو لفظ نہیں تڑپ متاثر کرتی ہے ۔
ہم میں سےبعض لوگوں کی دعاؤں ،درخواستوں ،التجاؤں میں کوئی ایسی تڑپ چھپی ہوتی ہے جو گزرتے قدموں کو رُکنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔آپ کبھی گزرتے ہوئے غور سے دائیں بائیں دیکھیں آپ کو اپنےارد گرد کئی ایسے لوگ ملیں گے جو سر اپاعجز اور مجسم درخواست ہوں گے ۔ان کی آنکھوں کے اندر التجا اور پکار ہوگی ۔میں نے زندگی میں ایسے بے شمار لوگ،لاتعداد جانور اور پودے دیکھے ہیں جو التجا کی بلندی پر تھے اور چلتے قدموں کو منجمد کر دیتے تھے ،یہ منہ سے کچھ نہیں بولتے تھے ،لیکن دیکھنے والوں کو ان کی ایک ایک نس پکارتی ہوئی دکھائی دیتی تھی ۔لیکن لاہور شہر کی ٓبادی کا وہ کتا ان سب سے آگے تھا ۔میں اسکی تڑپ آج تک نہیں بھول سکی ۔میں جب بھی دعا مانگنے لگتی ہوں مجھے وہ یاد آجاتا ہے اور میری دعائیں پھیکی پڑ جاتی ہیں ۔میں اُس وقت بہت چھوٹی تھی اور سکول جایا کرتی تھی ۔ریلوے ٹریک کےساتھ ایک خستہ حال چھوٹی سی مسجد تھی ۔مسجد کے سائے میں ایک بیمار خارش زدہ کتا لیٹا رہتا تھا ۔مرض کیوجہ سے اُسکے سارےبال جھڑ گئے تھے اور جسم پر سفید داغ تھے ،ان میں بعض داغوں سے خون رستا تھا ۔میرے والد گاڑی روک کر خوراک کا پیکٹ نکالتے اور اُسکے سامنے کھول کر رکھ دیتے ،پانی کی بوتل سے کتے کے برتن میں پانی ڈالتے اور کتے کے زخموں پر دوا ڈالتے تھے ۔یہ کام وہ کئی دنوں سے کر رہے تھے ،میں نے ایک دن واپسی پر پوچھاآپ یہ سب کیوں کرتے ہیں ؟ وہ مسکرا کر بولے ،یہ کتا التجا کے اُس درجے پر فائز ہے جہا ں خالق اور مخلوق کے درمیان ڈائریکٹ ڈائلنگ شروع ہو جاتی ہے ۔مخلوق جو کہنا چاہتی ہے خالق اس کے بولےبغیر سُن لیتا ہے ۔بیماری اور لاچاری کے اس عالم میں اس کا اللہ تعالیٰ کےساتھ مقناطیسی رابطہ بن جاتاہے اور میں خدمت کے ذریعے اس مقناطیسی رابطے میں اپنی عرضی ڈال دیتا ہوں ۔اور یوں میری التجا بھی اس تک پہنچ جاتی ہے ۔میں نے اگلے دن غور سے کتے کو دیکھا، اس میں واقعی کچھ تھا۔اسی طرح میرے والد پرانے ، اُجڑے اور جلے ہوئے درختوں کی بھی خدمت کرتے تھے ۔ وہ گزرتے وقت اچانک کسی بوڑھے درخت کے پاس رک جاتے ، اسے پانی دیتے اور اس کے بکھرے پتے اور سوکھی ٹہنیاں صاف کر دیتے تھے وہ لاکھوں کے ہجوم میں ضرورت مندوں کو تلاش کرتے تھے اور اُن کی مدد کرتے تھے اور میں حیران اُنہیں دیکھتی تھی اور پوچھتی تھی آپ کو کیسے کسی کی ضرورت کا پتا چل جاتا ہے ؟وہ کہتے تھے جب تک آپ زبان سے مانگتے رہتے ہیں دعا اپنی منزل تک متعین طریقوں سے قبول ہوتی ہے لیکن جب آپکی زبان رُکتی ہے اور پورا جسم دعا بن جاتا ہے تو وہ ذات آپ پر اپنی قبولیت کے سارے دروازے کھول دیتا ہے۔
اورنگزیب کا فارمولا درست تھا ہم میں سے اکثر لوگوں کی دعائیں تڑپ سے خالی ہوتی ہیں چناچہ قبولیت کے درفوری طور پر کھول نہیں پاتیں ،ہم تڑپ کی کمی کو حلق کے زور ،لفاظی اور گریہ زاری سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن قدرت نا سمجھ نہیں ہوتی یہ لفظوں اور برستی آنکھوں کے پیچھے جھانکنا جانتی ہے ۔لہذا یہ ہماری دعاؤں کو سائیڈ پر رکھ دیتی ہے ۔اور ہم دس دس سال تک دعاؤں کے بعد اللہ سے شکوہ کرتے باری تعالی ہم تو دس سال سے آپ کے ہاں زنجیر ہلا رہے ہیں آپ نےہماری ایک نہ سُنی توجہ نہ دی۔شائد اللہ اُس وقت ہم نادان لوگوں کیطرف دیکھ کر فرماتا ہوگا میں کیسے سُنوں میں تو تڑپ کی زبان سمجھتا ہوں اور تم مجھے اردو عربی پنجابی سے بہلا رہے ہو ۔
میں نے ایک بار ایک نامور سرجن سے پوچھا تھا "صحت دعا میں ہوتی ہے یا دوا میں "اس نے ہنس کر جواب دیا "اگر مریض چھوٹا ہو تو دوا میں اور بڑا ہو تو دعا میں " میں نے پوچھا" دعا سے مریض کتنے عرصے میں ٹھیک ہو جاتا ہے " اُنہوں نے جواب دیا مریض خود دعا کرے تو عرصہ لگ جاتا اور ماں دعا کرے تو جلدی ٹھیک ہو جاتاہے " میں نے پوچھا ماں کیوں " جواب ملا "ماں کی دعا میں تڑپ ہوتی ہے ،یہ منہ سے کچھ نہیں کہتی لیکن اس کا انگ انگ دعا بن جاتا ہے اور اللہ تعالی اس وقت ہمیشہ کرم کرتا ہے ۔ میرے بزرگ کہتے ہیں اللہ تعالی کی زبان تڑپ ہے ۔یہی وجہ ہے اللہ کے ہر نبی میں تڑپ تھی اور کوئی ولی بھی اس وقت تک ولی نہیں بن سکتا جب تک اس کی روح میں تڑپ پیدا نہیں ہوتی ،جب تک اندر سے آواز نہیں نکلتی۔
تڑپتا ہے اگر بچہ, تو ماں کا دم نکلتا ہے
مگر جب ماں تڑپتی ہے تو پھر زم زم نکلتا ہے

Facebook Comments

ہادیہ علی
تلاش کے سفر پر نکلی روح

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دعا اور تڑپ

Leave a Reply