اس ملک میں کون متنازعہ نہیں ہے؟

اس ملک میں کون متنازعہ نہیں ہے؟ میں کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوں ، کسی ایسی فکر اور فلسفے کی کھوج میں ہوں جس پر میرے سارے ہم وطن متفق ہوں۔ سب سے پہلے دورِ حاضر کی بات کی جائے تو کوئی کسی کے لیے آسمان سے نیچے دھرتی کا ناخدا ہے تو کسی دوسرے کے لیے شیطان سے برا۔ کسی میں یہ عیب ہے کہ وہ فلاں مسلک سے تعلق رکھتا ہے تو کسی کے لیے اس کی یہی خصوصیت اتنی اہم ہے کہ اس شخصیت کی ساری خامیوں پر حاوی ہے۔کوئی دائیں بازو کا ہونے کی وجہ سے ایک جگہ پر ناپسند کیا جاتا ہے تودوسرا بائیں بازوکا ہونے کی وجہ سے کسی دوسری جگہ پسند کیا جاتا ہے۔غرض بہت ہی طویل اور کٹھن ریسرچ کے بعد مجھے اس بات کا علم ہوا کہ آج کے دور میں تو کوئی لیڈر، سیاستدان یا سماجی رہنما ایسا نہیں کہ جس کو متفقہ طور پر سب پسند کرتے ہوں اور اس کی تائید میں اٹھ کھڑے ہونے کو تیار ہوں۔کوئی تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے تو اگلے ہی دن اس کے خلاف اخبارات، سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے ادارے بیانات، ویڈیوز ، تصاویر وغیرہ سے بھرے پڑے ہوتے ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ نہ یہ تبدیلی کوئی تبدیلی ہے اور نہ اس شخص کی جدوجہد کا مقصد کوئی تبدیلی ہے۔ کبھی انقلاب کی کوئی صدا بلند ہوتی ہے تو اسے بھی یوں ہی ٹھٹھے مذاق میں اڑایا جاتا ہے۔
کسی بھی قسم کی تبدیلی کا براہِ راست نقصان حکمران طبقے اور جاگیردارانہ نظام کو ہو سکتا ہے اسی تناظر میں جب جب احتساب، تبدیلی یا انقلاب کا نعرہ بلند ہوا تو سب سے پہلے اس کی مخالفت میں جو آواز بلند ہوتی ہے وہ اسی برسر اقتدار طبقے کی ہوتی ہے اور پھر میرے اور آپ کے ٹیکسون سے حاصل ہونے والی رقم اشتہارات میں کچھ اس طرح اڑائی جاتی ہے گویا کہ یہی اشتہارات ان کے اقتدار کی بقا کے ضامن ہوں۔ہم میں سے اکثریت اس نظام سے تنگ ہے اور ہمہ وقت اس نظام کے ہاتھوں لٹتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود تبدیلی بھی نہیں چاہتے۔
یہ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم لوگ افواہوں پر یقین رکھتے ہیں۔ جب ہمیں کسی کے حوالے سے کوئی معلومات ملتی ہیں تو ہم یہ نہیں سوچتے کہ اسے کیسے کنفرم کریں بلکہ اس خبر کو اپنی عقل کے پیمانے پر پرکھتے ہیں اگر وہ اچھی لگ جائے تو تحقیق کیے بنا آگے پھیلا دیتے ہیں۔ یوں وہ افواہ نیوکلئیر فشن ری ایکشن کی طرح ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ افواہوں کے ان غباروں کی عمر بہت کم ہوتی ہے بات کے واضح ہونے پر وہ غبارے پھٹ جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان افواہوں کا دیرپا اثر کسی نہ کسی صورت میں معاشرے میں موجود رہتا ہے۔ یوں اس تخریب کاری اور انتشار کے پھیلنے پھیلانے میں ہم سب ملوث قرار دئیے جاسکتے ہیں۔اگر کوئی ایسا نظام ہوتا جس سے ان افواہوں کا خاتمہ ممکن ہوتا جن کا غلط ہونا ثابت ہو چکا ہوتا ہے، تو ہم عوام میں موجود ڈپریشن، ناامیدی، گھٹن،مایوسی، انتشار جیسی کئی بیماریاں ختم ہو سکتی ہیں لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ مادرِ ملت کے وصال کے 45 سال بعد کراچی واٹر بورڈ نے بل کی عدم ادائیگی پر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے۔ شاید وہ مادر ملت کی وفات کو بھی افواہ ہی سمجھ بیٹھے تھے۔
جمہوریت پہ اعتراض یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کو سپورٹ فراہم کرتی ہے توسوشلزم میں محنت اور صلے میں عدم توازن اعتراض کی وجہ بنتا ہے۔حتیٰ کہ پاکستان جیسے مسلمان ملک میں مسلمان قوم کے مسلمان فرد ہی اس ملک میں شریعت کے نفاذ کی مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مدرسے لبرل اور سیکولر طبقے کو ہضم نہیں ہو رہے تو انگریزی نظامِ تعلیم مذہبی شدت پسند طبقوں کو حرام نظر آتا ہے۔ہر مسلک دوسرے کو کافر ثابت کربے میں اتنا مشغول ہے جتنا خودکو مسلمان بنانے میں نہیں۔
یہ افراط تفریط کا معاملہ کچھ نیا نہیں۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو جہاں تک میرا علم ہے کوئی بھی ایسی شخصیت، چیز، فلسفہ ، فکر اور پیغام نہیں جس پر پوری قوم متفق نظر آئے۔ یہ انتشار اور نقطہ نظر کا فرق بہت بڑی خلیج بنارہا ہے جس کو ختم کرنا دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بانی پاکستان کو اگر ایک طرف قائد ِ اعظم جیسا عظیم خطاب دیا جاتا ہے تو دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی خود کو پاکستانی کہتے ہیں جو انہیں کافرِ اعظم کہتے ہیں۔ اقبال ؒ کہ جس نے اس ملک کا خواب دیکھا ، بر صغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا وہ بھی اس اختلافانہ ماحول میں نہ بچ سکے ۔ پاکستان میں رہنے والے کچھ ایسے گروہ بھی ہیں جو پاکستان کے وجود سے واضح طور پر اور کھلے عام بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور تقسیم ِ بر صغیر کو انگریزوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔آئین پاکستان 1973ءکو مذہبی انتہا پسند گروہ اس لیے ناپسند کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ غیر اسلامی اور طاغوتی آئین ہے تو دوسری طرف لبر ل اور سیکولر شدت پسندوں کا یہ اعتراض ہے کہ اس آئین نے زبردستی اسلام کو ریاست کے اندر راسخ کردیا ہے۔
غرض کوئی ایسی فکر ، سوچ ، مسلک اور شخصیت نہیں جسے بجا طور پر متفقہ قراردیا جاسکے۔ اور ایسی صورت حال میں ہرشخص اپنا اپنا دائرہ بنائے بیٹھا ہے اس انتظار میں کہ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہو جائے گا کہ وہ پورے ملک کو اپنے محیط میں لے لے گا۔لیکن ہم اس بات پر تیار نہیں کہ کسی دوسرے شخص کو اس کے دائرے سمیت قبول کر سکیں ۔ ہر قوم کچھ بنیادی چیزوں پر متفق ہوتی ہے جو اسے قوم بناتی ہیںایسی چیزوں پر ہمین بھی اتفاق رائے رکھنا چاہیے ۔ پاکستان ، اس کا قیام، اس کے مقاصد۔۔۔۔ ان کے حوالے سے دورائے نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہی چیزیں ہماری بنیاد ہیں اگر ان پر بھی ہم متفق نہیں تو ہمیں قوم کہلائے جانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ باقی چیزوں پر اتفاق رائے ہم سب میں ہونا چاہیے اور دوسروں کی آراءکو سننے اور برداشت کرنے کی ہمت ہونی چاہیے اور اختلافات کے باوجود ساتھ چلنے کی ہمت بھی۔۔!! اور یہ ہر قوم کے لیے ضروری ہوتا ہے

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply