ہم گول دائروں میں چلتے ہیں

جب کبھی ان سے کھانے کے بارے پوچھا جاتا، ہر دفعہ وہ کچھ بھی پکانے کا کہہ کر جان چھڑوا لیتے. عموماً یہ اس وقت ہوتا جب وہ پہلے ہی کھانا کھا رہے ہوتے یا کھانا کھا کر سونے جا رہے ہوتے یا چائے پیتے ہوئے.
بھرے پیٹ چیزوں کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے. لیکن جب دوپہر کو یا شام کو وہ گھر لوٹتے تو عموماً وہی پکا ہوتا جو شاید انہیں سب سے ناپسند ہوتا اور مائیں بھی اکثر معصومیت کا اظہار ایسی چیزیں پکا کر کرتی ہیں جو بچے کم پسند کرتے ہیں اور وہی چیزیں صحت کے لیے مفید ہوتی ہیں جیسے خشک سبزیاں، جن کے بارے مشہور ہوتا ہے کہ بادی کم کرتی ہیں اور ایسی سمجھ نہ آنے والی باتیں.
آخر سب لڑکوں نے میس کی طرز پر ایک ضابطہ ترتیب دیا جس میں سب کی پسند سے کھانے لکھے گئے. حلیم، قورمہ، کڑی اور بریانی.
اگلے دن کڑی پکنا تھی. جب سب میز کے اردگرد جمع ہوئے تو سب کے سامنے سبزی رکھ دی گئی. شاید لوبیہ یا مونگرے.
ماں نے کڑی کو مہاجروں کا کھانا کہتے پکانے سے انکار کر دیا تھا.

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply