تسلیم، تردید اور تحقیق

تسلیم، تردید اور تحقیق
مزمل شیخ بسملؔ
ایک عزیز دوست نے سوال کیا کہ کسی کتاب کے مطالعے کے دوران قاری کو کیا رویہ رکھنا چاہیے؟ یہ رویہ بہت عام ہے کہ جب کوئی قاری کسی خاص موضوع پر کوئی کتاب پڑھتا ہے تو اسے من و عن تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی درستی پر قاری کو سرِ دست کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا۔ گویا وہ جو کتاب بھی پڑھے گا اس کے نظریات کو درست سمجھ کر تسلیم کرتا چلا جائے گا۔ کیا ایسا کرنا مناسب ہے؟ یا پھر ہر کتاب کو شک اور تردید کی نگاہ سے پڑھنا چاہیے ؟
جواب:
انسان کی ذہنی ساخت سہل پسند واقع ہوئی ہے۔ اسی واسطے سے وہ پیچ در پیچ مسائل میں خود کو الجھانے سے گریز کرتا ہے۔ اسے آسانی چاہیے۔ وہ آسانی کو اپنے لیے بہترین شے تصور کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس لیے فکری گھوڑے دوڑانا ایک انسان کے مجموعی مزاج کی حیثیت سے ایک استثنائی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جب کسی موضوع پر کوئی نئی بات پڑھنے میں آئے تو سب سے پہلے اسے بنا کسی غور و فکر کے تسلیم کیا جاتا ہے۔ حافظہ کا ایک حصہ اس معلومات سے پُر ہو کر آپ کے نظریات کی عمارت کو تعمیر کرنا شروع کردیتا ہے۔ اب آیا یہ تسلیم کرلینے والا معاملہ درست ہے یا غلط؟ اگر درست ہے تو کس قدر؟ غلط ہے تو کیسے؟ اس بات کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ جس موضوع پر آپ کی معلومات صِفر ہے ،وہاں آپ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ تردید کے لیے آپ کے دامن میں فی الحال کچھ موجود نہیں ہے۔ اور تسلیم کے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی چارہ نہیں ہے۔ دنیا کی ہر تحقیق “تسلیم”کی منزل سے شروع ہوتی ہے۔ اور یہ تسلیم کا مرحلہ بذاتِ خود تحقیق سے ماورا یا آزاد ہوتا ہے۔
جوں جوں آپ علم کی منازل طے کرتے جائیں گے توں توں آپ کے نظریات میں تنوع کا عنصر بڑھتا چلا جائے گا۔ گویا ہر ہر مقام پر آپ کو اس “تسلیم”کا سامنا رہے گا۔ ہر ہر قدم پر آپ کو شعوری یا لاشعوری طور پر سر جھکانا پڑے گا۔ ہر ہر صفحہ اور ہر ہر عبارت آپ کے نظریات پر اپنا رنگ چڑھاتی چلی جائے گی۔ اور یوں یہ سفر جاری رہے گا۔ تاہم ایک نکتہ یہاں ایسا ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ کوئی کتاب یا کوئی مضمون پڑھ کر آپ نے اپنے نظریات میں جو تبدیلی کی ہے، اگر وہ نظریات آپ کے مستقبل میں حصولِ علم کے لیے دیوار ہیں تو اس دیوار میں دروازہ بنانا ضروری ہے۔ یہ بات ہر موڑ پر ذہن میں ہونی چاہیے کہ جو کچھ آپ نے پڑھا، سنا، جانا اور سمجھا ہے، اس میں ابھی مزید ترقی کا امکان باقی ہے، اور یہ امکان کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔ آپ کا کوئی بھی نظریہ اتنا حتمی نہیں ہوتا کہ اس کے قیام کے بعد اس کے ساتھ آپ ساری زندگی گزار سکیں۔ کیونکہ یہ جمود کی صورت ہوتی ہے۔
تو بات یوں ہے کہ:
1۔ کوئی کتاب یا کوئی مضمون بھی اپنے موضوع میں کامل نہیں ہوتا بلکہ اس موضوع پر یہ صرف ایک جہت ہوتی ہے۔ اگلی جہت آپ کو اگلے قدم پر حاصل ہوگی۔
2۔ تسلیم کے بغیر تردید اور تحقیق ممکن نہیں ہے۔
3۔ ہر قدم پر آپ ایک نظریہ قائم کریں گے۔
4۔ ہر نظریہ غیر حتمی ہوگا۔
5۔ کوئی نظریہ بھی آپ کے اگلے علم میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply