قائد اعظم، مولانا مودودی اور تحریک پاکستان:۔

قائد اعظم، مولانا مودودی اور تحریک پاکستان
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ دو قومی نظریہ کی شاندار، مدلل اور مؤثر تشہیر کرنے، اسلامیان ہند کو بیدار کرنے، نیز کانگریس اور متحدہ قومیت کے علمبرداروں کی مٹی پلید کرنے کے باوجود مولانا مودودی رح نے کھل کر قائد اعظم رح کی سیاسی حمایت کیوں نہیں کی؟؟ حمایت نہ کرنے کی بنیادی وجہ مسلم لیگ کی صفوں میں موجود وہ کرپٹ جاگیردار تھے جنہیں قائد اعظم رح خود کھوٹے سکےکہا کرتے تھے، جن کے بارے سردار عبدالرب نشتر نے کہا تھا کہ “منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے”
بہرحال وجہ جو بھی تھی جماعت اسلامی کو آج تک پاکستان مخالف کا طعنہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟؟ کارگل، کشمیر، افغانستان،1965/1971 لازوال قربانیاں مگر یہ گھسا پٹا طعنہ پھر بھی جماعت اسلامی کے ساتھ چمٹا دیا گیا ہے۔۔۔ علامہ اقبال، شریف الدین پیرزادہ، فیض احمد فیض، میاں محمد شفیع، مولانا ظفر احمد انصاری، قمرالدین جیسے زعماء امت نے حتی کہ قائد اعظم رح نے خود بھی مولانا مودودی رح کے کام کو سراہا اور دو قومی نظریہ کے حق میں ديے گئے زبردست دلائل کا خیر مقدم کیا۔
1943/44 میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما قمر الدین رح نے قائد اعظم رح سے ملاقات کی تو قائد اعظم رح نے فرمایا۔میں مودودی اور جماعت اسلامی کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں مگر ہم ایک ہنگامی صورتحال سے دو چار ہیں۔ اگر ہم آج اسلامیان ہند کے لیے الگ وطن حاصل نہ کر سکے تو کل جماعت اسلامی بھی اپنا کام مکمل نہ کر سکے گی۔پاکستان بننے کے فورا ًبعد قائد اعظم رح کی ہدایت پر مسلسل ایک سال تک مولانا مودودی رح کو ریڈیو پاکستان پر خطبات کے لیے بلانا مولانا کی خدمات کا اعتراف ہی تو تھا۔کسی نے مولانا مودودی رح کے کٹر نظریاتی مخالف معروف شاعر و دانشور فیض احمد فیض رح سے پوچھا،کیا مولانا مودودی پاکستان کے مخالف تھے؟؟
فیض نے جواب دیا،یہ انکشاف تو پاکستان بننے کے بعد ہوا کہ مولانا پاکستان کے مخالف تھے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ سے نابلد جب چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ جماعت اسلامی پاکستان کی مخالف تھی اور بیچاری جماعت اسلامی بھی 69 سال سے بیک فٹ پر کھڑی بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
قرارداد پاکستان 1940 میں منظور ہوئی جسکا سیدھا صاف مطلب یہ ھے کہ36 /1935 سے 1946/47 کے دوران وہی شخص پاکستان مخالف ہو سکتا ہے جو یا تو انگریز کا وفادار ہو، یا کانگریس کا حصہ ہو یا پھر متحدہ قومیت کا حامی۔۔۔کیا ان تین باتوں میں کوئی ایک بات بھی ایمانداری سے مولانا مودودی رح کی طرف منسوب کی جا سکتی ہے؟؟؟ ہر وہ شخص جسے اللہ نے عقل سلیم سے نوازا ہو وہ تحریک پاکستان کے تناظر میں لکھی گئی مولانا کی کسی بھی تصنیف کی چند سطریں پڑھ کر ہی اندازہ کر سکتا ہے کہ مولانا مودودی رح کی فکر، فلسفے اور جدوجہد کا موضوع صرف و صرف دو قومی نظریہ اور ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح تھی۔

Facebook Comments

سردار جمیل خان
کرپشن فری آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے جدوجہد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply