ہم جنس پرستی اور نجمہ سلطانہ صاحبہ کی تحریر

نوٹ :
مکالمہ پر چھپنے والی ایک تحریر کے جواب میں یہ تحریر بھیجی گئی ہے۔ یقینا دلیل اور شائستگی سے کسی بات کا رد کرنا ہی مناسب عمل ہے۔ امید ہے کہ پروفیسر نجمہ دوسری قسط لکھتے ہوے اعتراضات کو بھی مد نظر رکھیں گی.ایڈیٹر.

Advertisements
julia rana solicitors

نجمہ سلطانہ صاحبہ نفسیاتی امراض کی ڈاکٹر ہیں اور میں نفسیاتی مریض ہوں۔مریض کا ڈاکٹر کی رائے سے اتفاق ذرا کم ہی ہوتا ہے سو اختلاف کا حق مجھے بھی حاصل ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے ایک کالم میں خواتین کی ہم جنس پرستی کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا کہ مجھے لڑکپن کا وہ زمانہ یاد آگیا جب ہم چھپتے چھپاتے دس دس روپے کی اسٹوریز خرید کر عالم تنہائی میں پڑھا کرتے تھے۔یہ کالم بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔انکے مضمون سے نہ تو اصلاح کا کوئی پہلو سامنے آرہا ہے اور نہ ہی انکے کسی طرف جھکائو کا اندازہ ہورہاہے۔
بہرحال انکی تحریر میں وہ سیکس کے معاملات کو والدین کے ساتھ زیر بحث نہ لانے پر کچھ ناخوش سی نظر آئیں تو دوسری طرف لڑکیوں کے ہاسٹل میں تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں ایک رکاوٹ کھڑی کرتی نظرآئیں۔باقی کہانی تو ہماری لذت مطالعہ کا سامان تھی۔
عرض یہ ہے کہ ہم جنس پرستی چاہے مردانہ ہو یا زنانہ،اس کا انحصار نہ تو گھٹن زدہ ماحول پر ہے اور نہ ہی آزادانہ معاشرے کا مرہون منت۔یہ تو حد سے بڑھ جانے والے لوگ ہیں جو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو نظام قدرت کو بدل پاتے ہیں اور نہ ہی سیر حاصل لذت کی معراج کو پہنچ سکتے ہیں۔دوسری بات وہ کہتی ہیں کہ "اس لڑکی کی مردوں میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی" تو بات سادہ سی ہے کہ گرلز ہاسٹل میں لڑکے میسر نہ ہوں تو آخر دل تو بہلانا ہی تھا ناں۔وگرنہ کیا وجہ ہے کہ وہ یورپی ممالک جو ہم جنس پرستی کو شادی تسلیم کرتے ہیں وہاں بھی مخالف جنس میں دلچسپی نہ تو ختم ہوئی اورنہ ہی کم۔
ہم جنس پرستی کی وباء نہ صرف ترقی یافتہ ممالک بلکہ پسماندہ علاقوں میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔جس کی دو وجوہات ہیں۔پہلی یہ کہ وہ معاشرے جو سیکس کی آزادی دیتے ہیں وہاں پر لوگ یا تو فطری سیکس سے اکتا چکے ہیں یا وہ جنس مخالف کے احساس کو بھی محسوس کرنا چاہتے ہیں یا پھر وہ منشیات کی طرح سیکس کے معاملے میں بھی کوئی تشنگی نہیں چاہتے۔یا یوں کہہ لیجئے کہ ایک ٹکٹ میں دو مزے۔
دوسری وجہ وہ معاشرے ہیں جہاں مخالف جنس کی طلب توعروج پر ہو لیکن دسترس نہ ہو۔جیسے کہ ہمارے گائوں دیہات یا پھر اور دوسرے علاقے جہاں مردانہ ہم جنس پرستی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہاں لڑکیاں اتنی آسانی سےمیسر نہیں توباوجود جنس مخالف کی طلب کے ہم جنس پرستی پر اکتفا کرلیا جاتاہے۔ تو ہو سکتا ہے کہ زنانہ ہم جنس پرستی بھی کہیں کہیں کبھی کبھی ہوتی ہو۔لیکن ایسے واقعات آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہونگے۔ویسے بھی محترمہ نے اس عمل کو بلیو فلم کا ردعمل قراردیا ہے جس کی آزادی کم از کم ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو بہت کم ہی حاصل ہے۔ہمارے معاشرے میں بروقت شادی اور غیرضروری آزادی کا نہ ہونا ہی اس برائی سے لڑکیوں کو دور رکھنے کی بڑی وجہ ہے۔لہذا میرا نہیں خیال کہ اس ایکسیپشنل کیس کو موضوع بحث بنا کر ڈاکٹر صاحبہ کو ان لڑکیوں کے کردار کو متنازع بنانے کی کوشش کرنی چاہئے جو حصول علم کی خاطر ہاسٹلز کا رخ کرتی ہیں۔

Facebook Comments

ساجد ڈاڈی
فیس بک پر "اقبال جرم" کے نام سے موجود ہیں۔سیاسی معاملات پر اپنا نقطہ نظر برملا پیش کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply