انتہا پسند سوچ کا فروغ اور آزادی اظہار رائے

ملک عزیز میں سر چھپانے کو چھت اور زمین کا کوئی بنجر ٹکڑا ہمارے محافظ اداروں نے نہیں چھوڑا تو دنیائے ادب میں شاعروں نے کچھ ایسا اندھیر مچایا کہ تک بندی کر کے کوئی شعر ہو بھی جائے تو اس پر گمان ہوتا ہے کہ یہ تو فلاں صاحب بہت پہلے کہہ گئے تھے سو اس کے سوا کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی کہ جنرلوں کی زمین پر کرائے دار بن کر رہیں اور شاعروں کی زمین پر تک بندیوں کی گھاس سے جگالی کریں ۔
وہ دوست جنھوں نے کبھی عامر لیاقت کو میلی نظروں سے نہیں دیکھا وہ ان پرعائد کی جانے والی پابندی کو خونخوار نظروں سے ضرور دیکھ رہے ہیں انکا موقف ہے کہ عامر لیاقت پر عائد پابندی اظہار رائے پر پابندی کے مترادف ہے اور آنے والے دنوں میں اس قسم کی پابندیاں ان پر بھی عائد ہو سکتی ہیں جو آج عامر لیاقت پر پابندی کا خیر مقدم کر رہے ہیں ۔ سوشل مڈیا پر اس طبقہ فکر کے سرخیل جناب انور سن رائے صاحب ہیں جنکے اعتراضات کی نوعیت دو طرح کی ہے اول تو وہ فرماتے ہیں کہ پمرا نے بنیادی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور فرد جرم و سزا کا بیک وقت اطلاق کر دیا ہے دوسرا انکا ماننا ہے کہ عامر لیاقت نے کچھ سوالات اٹھائے تھے جنکا جواب دینا چاہئے تھا نہ کہ انکا منہ بند کرنے کو کوشش کی جاتی ۔
انتہا پسند تکفیری سوچ اور روشن خیال لبرل سوچ میں ایک بنیادی فرق کی لائن کو واضع کرتے ہوئے جناب سن رائے کا موقف مخالف رائے کے احترام ، برداشت اور رواداری کے ضمن میں لائق تحسین ہے مگر زمینی حقائق پمرا کے اقدام کی حمایت کر رہے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پمرا نے بنا کسی وارننگ نوٹس کے پابندی کا پروانہ جاری کیا ہے مگر نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ بعض ہنگامی نوعیت کی صورتحال میں اس قسم کی استثنا ایک عام فرد کو بھی حاصل ہو جاتی ہیں اور ایک قاتل کے مقابلے میں ایک عام فرد اپنی جان بچانے کیلئے قاتل کو قتل کر کے بھی قانونی استثنا حفاظت خود اختیاری کا سہارا لیکربچ نکلتا ہے ۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آیا عامر لیاقت کے متنازعہ پروگرام سے پیدا ہونے والی صورتحال کیا ہنگامی اقدامات کا تقاضہ کر رہی تھی ۔
ہم نہایت خلوص کے ساتھ یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ سن رائے صاحب سمیت جو اہل فکر و نظر پمرا کے اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں انھوں نے عامر لیاقت کے پروگرام کو مکمل طور پر نہیں دیکھا انکے مد نظر وہ چند سوالات ہیں جو مختلف مڈیا ہاوسسز میں موجود اینکر پرسنز کی سیاسی جانبداریوں کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں ۔ گو کہ اس لفظ غیر جانبداری سے ہمیں شدید اختلاف ہے کہ اگر اسے ان معنوں میں لیا جاتا ہے کہ ایک صحافی نظریہ اور فکر سے خالی ہو تویہ سوچ بنیادی طور پر غیر حقیقی ہے ۔ اگر کوئی فکر و نظریہ نہیں رکھتا وہ یا تو دیوتا ہوگا یا پھر دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہوش مند انسان کسی طور غیرجانبدار نہیں ہوتا ۔ مگر عامر لیاقت پر پابندی کا مدعا یہ نہیں ۔
جس بنیاد پسندی کی حامل انتہا پسند اور تکفیری سوچ کے نفاذ کیلئے گذشتہ چار عشروں سے بندوق کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے عامر لیاقت نے اس سوچ کے نفاذ کیلئے باقاعدہ روشن خیال اور اعتدال پسند سوچ کو آزادی اظہار کے نام پر کچلنے کی کوشش کی ہے پیش منظر میں بھلے یہ اس کی انفرادی کوشش رہی ہو مگر پس منظر میں اس مہم جوئی کیلئے وہ تنہا نہیں تھا ۔
عامر لیاقت نے سوال نہیں اٹھائے بلکہ سوال اٹھانے والوں کا سر کچلنے کی کوشش کی ہے اور اگر یہ کوشش کسی دلیل کی بنیاد پر کی جاتی اور سوال اٹھانے والوں کے جواب میں مکالمہ و دلیل کا راستہ اختیار کیا جاتا تو وہ بیشک قابل قبول ہوتا مگر دلیل و سوال کے جواب میں جو راستہ اختیار کیا گیا وہ ذاتی کردار کشی کا راستہ تھا چناچہ وہ سماج کے ہر معتبر نام کو لیکر ایک جانب انکا موقف دکھاتے رہے اور دوسری جانب انکے موقف کا جواب دینے کے بجائے انکی ذاتی کردار کشی کرتے رہے ۔ یہاں تک بھی تمام معاملات کو سرخ فیتے کے ضابطوں میں پرویا جا سکتا تھا مگر اس سے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے جب انہوں نے غداری اور گستاخی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنا شروع کیئے تو بات اس لیئے ہنگامی صورتحال اختیار کر گئی کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں مذہب اور عقیدے کو پہلے ہی اس قدر حساس موضوع بنا دیا گیا ہے کہ کسی پر گستاخی مذہب اورگستاخی رسالت کا فتوی لگانے کا مظلب اسے اور اسکے ہر حمایتی کو موت کے سفر پر روانہ کرنے کے مترادف ہے سماج ایسا کیوں ہو گیا ہے ؟ ان رویوں کا سبب کیا ہے ؟ جذبات کیوں کسی ضابطے اور قانون کے احترام سے عاری ہو جاتے ہیں یہ قطعی طور پر ایک علیحدہ اور طویل موضوع ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ عامر لیاقت نے نہایت غیر ذمہ دارانہ انداز میں مذہبی منافرت کا پرچار کر کہ محض چند ایک افراد کو نہیں ان سے وابستہ سینکڑوں افراد اور انکی حمیایت کرنے والے ہزاروں لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور بیک وقت کئی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا جس پر اسے فوری طور پر بین کرنا قطعی طور پر جائز ہے ۔ وہ تمام افراد جن کی اس نے ذاتی کردارکشی کی اور وہ تمام افراد جن پر اس نے کفر کے فتوے لگائے اجتماعی طور پر اور انفرادی طور پر بھی عدالتی کاروائی کے ذزیعے عامر لیاقت سے جواب طلب کر سکتے ہیں کہ وہ ثابت کرئے وہ سب جو وہ کہتا رہا ہے ۔
عرض صرف اتنی ہے کہ پمرا نے عامر لیاقت پر پابندی لگا کر اسے کوئی سزا نہیں دی سزا تو اسے عدالت دے گی اس وقت جب وہ نہ تو اپنی تحقیق کے ” ذرایع ” ظاہر کر سکے گا اور نہ ہی بے بنیاد الزامات کو ثابت کر سکے گا ۔ مگر یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوگا ؟ عامر لیاقت جنکے بیانیہ کے نفاذ کی کوششوں میں مصروف تھا انکے اثر سے ہمارا نظام عدل آزاد ہے ؟ آنے والے دنوں میں اس سوال کا جواب انکے لیئے ضرور اہمیت کا حامل ہوگا جو پمرا کی جانب سے اس پابندی کی مخالفت کر رہے ہیں ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply